محمد عدیل ( درجہ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
قرآن کریم
اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی
رہنمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل
فرمایا آئیے اس بارے میں چند آیتیں ملاحظہ کرتے ہیں:
(1) یَضْرِبُ
اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ ترجمہ
کنز الایمان : اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں اس لئے
بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی
اچھی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: 25، ص208، خازن،
ابراہیم، تحت الآیۃ: 25، 3 / 82، ملتقطاً)
(3) لَوْ
اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا
مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ
لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ۔
ترجمۂ کنز الایمان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتارتے تو ضرور تو اُسے دیکھتا
جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان فرماتے
ہیں کہ وہ سوچیں ۔
تفسیر صراط الجنان: یعنی قرآنِ مجید کی عظمت و
شان ایسی ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتارتے اور اُس کو انسان کی سی تمیز عطا
کرتے تو انتہائی سخت اور مضبوط ہونے کے باوجود تم اسے ضرورجھکا ہوا اور اللّٰہ
تعالیٰ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے ،ہم یہ اور اس جیسی دیگر مثالیں لوگوں کے لیے
بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (اور خیال کریں کہ جب ہم اشرف المخلوقات ہیں تو
چاہیے کہ ہمارے اعمال بھی اشرف و اعلیٰ ہوں۔) (مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: 21، ص1228، خازن،
الحشر، تحت الآیۃ: 21، 4 / 253، ملتقطاً)
(4) وَ
تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا
الْعٰلِمُوْنَ ترجمۂ کنز
الایمان:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے
مگر علم والے۔
تفسیر صراط الجنان: کفارِ قریش نے طنز کے طور پر
کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے
مذاق اڑایا تھا ۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کئے
جانے کی حکمت کو نہیں جانتے ،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو
اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے
اور یہاں چونکہ بت پرستوں کے باطل اور کمزور دین کی کمزوری اوربُطلان بیان کرنا
مقصود ہے لہٰذا اس کے اِظہار کے لئے یہ مثال انتہائی نفع مندہے اور ان مثالوں کی
خوبی، نفاست،عمدگی ، ان کے نفع اور فوائد اور ان کی حکمت کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جنہیں
اللہ تعالیٰ نے عقل اور علم عطافرمایا ہے جیسا کہ یہاں بیان کی گئی مکڑی کی مثال
نے مشرک اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے والے کا حال خوب اچھی طرح ظاہر
کر دیا اور فرق واضح فرما دیا ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: 43، ص893،
ملخصاً)