قراٰنِ مجید
سراپا حکمت ہے،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بھلائی پر قائم رکھنے کےلئے اور زندگی میں
عبرت سیکھنے کےلئے قراٰنِ کریم میں کئی مثالیں بیان کی ہیں ان میں ہر مثال اپنے
اندر کئی اسرار اور حکمتیں رکھتی ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ اپنی آنکھوں سے
کسی چیز کا مشاہدہ کرتا ہے تو یقین کی اعلیٰ سطح پر چلا جاتا ہے۔اس لئے اللہ پاک
نے ایسی مثالیں بیان کی ہیں جس سے انسان یا تو براہِ راست متعارف ہوتا ہے یا
بالواسطہ ان کی خبر رکھتا ہے اللہ پاک نے قراٰن میں جو امثال بیان کی ہیں وہ اس
طرح جامع ہیں کہ تاریخِ انسانیت کے تمام ادوار کےلئے ان میں عبرتیں پوشیدہ ہیں ہر
زمانے کے علمائے کرام ان مثالوں سے اپنے زمانےکے لوگوں کی راہنمائی کے لئے دروس و
عبرتیں بیان کرتے آرہے ہیں۔آئیے! قراٰنِ مجید کی چند مثالوں کی حکمتیں ملاحظہ
فرمائیے:
(1)غورو
فکر کرنا: اللہ پاک نے قراٰنِ مجید
میں مثالیں بیان فرمائیں تاکہ لوگ اس میں غورو فکر کریں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
﴿وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان:اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان
فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔(پ28،الحشر:21)
(2)نصیحت
حاصل کریں: اللہ پاک لوگوں کے لئے
مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے
بات اچھی طرح دل میں اتر جاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیَضْرِبُ
اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان
فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔(پ13،ابراھیم:25)
(3)کفارِ
قریش کی جہالت کو بیان کرنا: کفارِ
قریش نے مذاق اڑاتے ہوئے بطور طنز کہا تھا کہ اللہ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان
فرماتا ہے۔ قراٰن کریم میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کرنے
کی حکمت کو نہیں جانتے،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کے
لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری
تعالیٰ ہے:
﴿وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَمَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(۴۳)﴾ترجَمۂ کنزالایمان: اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان
فرماتے ہیں اور اُنہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔(پ 20،العنکبوت:43)
(4)منافقوں
کو گمراہ کرنا اور مسلمانوں کو ہدایت دینا: نزولِ قراٰن کا اصل مقصد تو ہدایت ہے لیکن چونکہ قراٰنی مثالوں کے ذریعے
بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اور کلام کے
بالکل معقول، مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجود وہ اس کا انکار کرتے ہیں
اور انہی مثالوں کے ذریعے اللہ پاک بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق
کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَمَّا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَاَمَّا
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ
بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَمَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا
الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں
کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا
مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور
اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔(پ1،البقرۃ:26)