اہلِ بیت کون ہیں؟حضور تاجدارِ مدینہ ﷺ کے نسب اور قرابت کے لوگوں کو اہلِ بیت کہا جاتا ہے۔اہلِ بیت میں پیارے آقا ﷺ کی ازواجِ مطہرات،آپ کے شہزادے اور شہز ادایاں،حضرت مولیٰ علی،حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی الله عنہم سب داخل ہیں۔اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ پاک نے رجس و ناپاکی کو دور فرمایا،انہیں خوب پاک کیا اور جو چیز ان کے مرتبہ کے لائق نہیں،اس سے ان کے پروردگار نے انہیں محفوظ رکھا،ان پر دوزخ کی آگ حرام کی،صدقہ ان پر حرام کیا گیا کیونکہ صدقہ،دینے والوں کا میل ہوتا ہے۔پہلا گروہ جس کی حضور شفیعِ محشر ﷺ شفاعت فرمائیں گے وہ آپ کے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ہیں۔اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت فرائضِ دین سے ہے اور جو ان سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے کہ جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ہلاک و بر باد ہوا۔حضور ﷺ نے ان حضرات کے ساتھ اپنی باقی صاحبزادیوں،قرابت داروں کو بھی اپنے اہلِ بیت میں شامل فرمایا۔

نبیِ کریم ﷺ کی اہلِ بیتِ اطہار سے محبت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:آپ ﷺ نے اہلِ بیت سے بکثرت محبت و عقیدت کا اظہار فرمایا،چنانچہ

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک صبح نبیِ کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ پر کالی اون کی مخلوط چادر تھی۔امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہما آئے تو حضور ﷺ نے انہیں چاد رمیں داخل کر لیا،پھر امام حسین رضی اللہ عنہ آئے وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہو گئے،پھر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آئیں تو انہیں بھی داخل کر لیا گیا،پھر مولیٰ علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں بھی داخل کر لیا گیا۔پھر فرمایا:اے نبی کے گھر والو! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔

(مسلم،ص1013،حدیث:6261)

اسی طرح اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب میرے گھر میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:(اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳))(تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے) تو رسولُ اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا: یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔حضرت امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ﷺ!میں بھی اہلِ بیت سے ہوں؟رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:کیوں نہیں!اِنْ شَآءَ اللہ۔(شرح السنہ للبغوی، 7/204، حدیث:3805)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیہ ٔتطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:6مہینے تک نبیِّ اکرم ﷺ کا یہ معمول رہا کہ نمازِ فجر کے لئے جاتے ہوئے حضرت سیِّدَ ہ فاطِمۃ الزَّہرا رضی اللہ عنہا کے گھر کے پاس سے گزرتے تو فرماتے:اے اہلِ بیت! نماز قائم کرو۔(ترمذی،5/142،حدیث:3217)

آپ ﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے) کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت (پانے) کے لیے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔(ترمذی،5/ 434،حدیث: 3814)

مصطفىٰ عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلِ بیت

ایک طویل حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت حصین نے حضرت زید سے پوچھا:کیا آپ ﷺ کی ازواج اہلِ بیت نہیں؟انہوں نے فرمایا:آپ ﷺ کی ازواج اہلِ بیت ہیں لیکن آپ ﷺ کے اہلِ بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔(مسلم،ص1008،حدیث:6225)

اہلِ بیتِ مصطفےٰ ہیں صاحبِ حرمت بھی ہیں روحِ دیں ہیں،بلکہ دیں ہیں،امہات المومنین

آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اہلِ بیتِ اطہار کے حوالے سے خصوصی وصیت فرمائی جس سے آپ ﷺ کی ان سے محبت اور ان کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

حدیثِ مبارک میں ہے:حضرت حُذَ یْفَہ بن اُسَیْد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو!میں تمہارا پیش رو ہوں اور تم حوض پرآؤ گے۔پس جب تم میرے پاس آؤ گے تو میں تم سے دو بھاری چیزوں کے متعلق دریافت کروں گاتوتم غورکروکہ میرے بعد ان دونوں کے بارے میں میرے کیسے جانشین رہے ہو۔سب سے زیادہ بھاری چیزکتاب اللہ ہے۔اس کی رسی کا ایک کنارہ اللہ پاک کے دستِ قدرت میں اوردوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ لہٰذاکتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھواور گمراہ نہ ہونا اور نہ ہی اسے بدلنا۔د وسری چیز میری عترت یعنی اَہل بیت ہیں۔ بے شک مجھے مہربان و خبردارنے خبر دی ہے کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک میرے حوض پر نہ آئیں گے۔

(معجم کبیر،3/180-65،حدیث:3052،2678)

دستِ اطہر سے نبی کے جنت الفردوس میں پی رہے ہیں جامِ کوثر تشنگانِ اہلِ بیت

آپ ﷺ اپنے اہلِ بیت سے محبت فرماتے تھے،آپ نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی اس چیز کا واضح اعلان فرمایا اور اُمت کو اپنے اہلِ بیت سے محبت و عقیدت کا درس دیا،کیونکہ اہلِ بیت کی محبت،ان سے عقیدت اور ان کے حقوق کی بجا آوری میں ہی آخرت کی کامیابی ہے۔جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا:ہم اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑو!پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں اللہ پاک سے ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔

(مجمع اوسط،1/606،حدیث:2230 )

جو ہیں سرتا پا جہاں میں عاشقانِ اہلِ بیت مل گئی روز ِجزا ان کو امانِ اہلِ بیت

رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: جو وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو،جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں،اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور اُنہیں خُوش کرے۔(برکاتِ آلِ رسول،ص110)

اہلِ بیت سے بغض: رسول اللہﷺ نے فرمایا: خبردار ! جو اہلِ بیت کے بغض و عداوت پر مرا،وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا کہ یہ اللہ پاک کی رحمت سے نا امید ہے۔(الشرف المؤبد،ص79)ایک اور روایت میں فرمایا: جو اہلِ بیت سے بغض یا حسد کرے گا،اسے قیامت کے دن حوضِ کوثر سے آگ کے چابکوں سے دُور کیا جائے گا۔

(کنزالعمال،6/48،حدیث:34198،الجزء :12)

اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت کی محبت و عقیدت سے وافر حصہ عطا فرمائے۔آمین