حضور ﷺ کی اہلِ بیت سے محبت از بنت
محمد قیصر شفیق،فیضان خدیجۃ الکبری کنگ سہالی گجرات
پیارے آقا ﷺ اپنے گھر والوں سے بہت محبت کرتے
تھے اور اس کا حکم بھی اپنی امت کو دیا کہ وہ بھی اہلِ بیت سے محبت کریں۔اہلِ بیت
سے محبت کرنے کے حوالے سے یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:قُلْ
لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ 25 ،الشوری:23)ترجمہ: ترجمۂ
کنزالایمان : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اُجرَت نہیں مانگتامگر قَرابَت کی
مَحَبّت ۔
حضرت مولانا سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
تحریر فرماتے ہیں:اس آیتِ مبارکہ کا شان نزول حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے اس
طرح مروی ہے کہ جب نبی کریمﷺمدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے اور
انصار نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے ذمّہ مصارف بہت ہیں اور مال کچھ بھی نہیں ہے تو انہوں
نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور کے حقوق و احسانات یاد کرکے حضور کی خدمت میں پیش
کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض
کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ہوئی ، ہم نے گمراہی سے نجات پائی ، ہم دیکھتے
ہیں ، کہ حضور کے مصارف بہت زیادہ ، اس لئے ہم یہ مال خدّامِ آستانہ کی خدمت میں
نذر کے لئے لائے ہیں ، قبول فرما کر ہماری
عزّت افزائی کی جائے ، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے وہ اموال واپس
فرمادیئے ۔(تفسیر خزائن العرفان،ص893)
رشتہ دار سے کون لوگ مراد ہیں؟حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتی ہیں کہ اس کے بارے میں
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:اس سے نبیِ اکرم ﷺ
کے رشتہ دار مراد ہیں اور مقرضی نے فرمایا:مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کی تفسیر
میں فرمایا:اے حبیب!اپنے پیروکار مومنوں کو فرما دو کہ میں تبلیغِ دین پر تم سے
کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت رکھو۔حضرت ابو
العالیہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- یہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں۔ابو اسحاق فرماتے ہیں:میں
نے حضرت عمر و بن شعیب سے اس آیتِ کریمہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:قُربٰی
سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں۔ رہا یہ سوال کہ رشتہ دار سے کون لوگ مراد ہیں؟
تو علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے در منثور اور دیگر کئی مفسرین نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے
حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ صحابہ کرام نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!آپ کے وہ کون سے رشتہ دار ہیں جن کی
محبت ہم پر واجب ہے؟آپ نے فرمایا:علی،فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم۔( خطباتِ
محرم،ص 232 تا 234)
اس سے معلوم ہوا کہ جب مسلمانوں میں باہمی محبت واجب ہے تو
اشرف المسلمین یعنی اہلِ بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت بدرجۂ اولی
واجب ہے۔خلاصہ یہ ہوا کہ میں ہدایت اور ارشاد پر کوئی معاوضہ نہیں طلب کرتا لیکن میرے
رشتہ داروں کی محبت جو تم پر واجب ہے اس کا خیال رکھنا۔
رسول اللہ ﷺ نے اہلِ بیت سے محبت کا حکم دیا اور فرمایا:خبردار
ہو کر سن لو!جو شخص اہلِ بیت کی محبت پر فوت ہو وہ تائب ہو کر فوت ہوا۔ (الشرف
المؤبد، ص 81)
فرمایا:کان کھول کر سن لو!جو شخص اہلِ بیت کی محبت پر فوت
ہوا اسے حضرت عزرائیل علیہ السلام اور پھر منکر نکیر جنت کی بشارت دیتے ہیں۔(الشرف
المؤبد، ص 81)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اہلِ بیت کی محبت پر فوت
ہوا اس نے شہادت کی موت پائی۔
(الشرف المؤبد، ص
81)
اہلِ بیت سے محبت ہونی چاہیے ،ان کی محبت دلوں میں مضبوط ہونی
چاہیےاور کسی قسم کا شک و شبہ نہ کیا جائے۔یہ ساری خوشخبریاں اور بشارتیں ان لوگوں
کے لیے ہیں جو اہلِ بیت سے محبت رکھتے ہیں۔
(خطبات محرم ،ص
236)
پوری حدیث شریف میں آلِ محمد کا ترجمہ اہلِ بیت اس لیے کیا
گیا کہ اہلِ بیت علیہم الرضوان کے آلِ رسول ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں اور
دوسروں کا آلِ رسول ہونا اختلافی ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی حقیقی معنوں میں اہلِ بیت کی
محبت عطا فرمائے امین۔