اہلِ بیت کے معنی ہیں:گھر والے۔ہمارے پیارے نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیتِ اطہار کی 3 قسمیں ہیں:

1-اہلِ بیت ولادت:وہ اہلِ بیت جو حضور اکرم ﷺ کی اولاد میں سے ہوں۔جیسے حضرت فاطمہ اور امام حسن و حسین رضی اللہُ عنہم۔

2-اہلِ بیتِ نسب:جو پیارے آقا ﷺ کے نسب میں داخل ہیں(نہ کہ وہ لوگ جنہوں نے اسلام میں حضور ﷺ کی مدد نہ کی۔)اہلِ بیت نسب میں امیر المومنین حضرت علی،حضرت جعفر و عباس رضی اللہُ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔

3-اہلِ بیت مسکن:وہ اہلِ بیت جو نبیِ پاک ﷺ کے گھر میں رہنے والے اور آنے جانے والے ہوں۔جیسے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہ۔

یاد رہے!پیارے آقا ﷺ کی مقدس بیویاں رضی اللہُ عنہن بھی اہلِ بیتِ اطہار میں شامل ہیں۔

( تفسیرقرطبی،7/134،جزء :14)

ہمارے پیارے آقا ﷺ تمام جہان والوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔لہٰذا آپ نے اپنی رحمت اور محبت و الفت سے اپنی اُمت کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی خوب نوازا اور ان سے محبت کر کے ہمیں بھی اپنے گھر والوں،آل اولاد سے محبت و شفقت کا انداز اپنانے کا عملی نمونہ عطا فرمایا۔آپ کی اپنے اہلِ بیت سے محبت کی جھلکیاں احادیثِ مبارکہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔چنانچہ اس بارے میں چند احادیثِ مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:

اہلِ بیت میں سب سے پیارا کون؟حضور ﷺ کو اپنے اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ ُعنہا سب سے پیاری تھیں۔چنانچہ جب سفر پر جایا کرتے تو اخیر میں آپ سے مل کر جاتے۔جب واپس آتے تو سب سے پہلے آپ سے ملتے۔( مواہب لدنیۃ،4/395)

حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(بخاری،2/550،حدیث:3767)ایک اور روایت میں ہے:جو چیز انہیں پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اور جو انہیں تکلیف دے وہ مجھے ستاتا ہے۔(مسلم،ص1021،حدیث:6307)

حضرات حسنینِ کریمین سے محبت:حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ سے پوچھا گیا:اہلِ بیت میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا:حسن اورحسین۔حضور ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ ُعنہا سے فرماتے تھے کہ میرے پاس میرے بچوں کو بلاؤ!پھر انہیں سونگھتے اور اپنے سے لپٹاتے تھے۔

(ترمذی،5/428،حدیث:3797)

حضرات حسنینِ کریمین کو پیار سے سونگھا کرتے:حضرت ابنِ عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں:رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔(بخاری،2/547،حدیث:3753)

حضرت اُسامہ و حسن سے محبت:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہ نبیِ کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ مجھے پکڑ کر اپنی ران پر اور حسن ابنِ علی رضی اللہُ عنہ کو دوسری ران پر بٹھا لیتے تھے۔پھر دونوں کو لپٹا کر فرماتے:الٰہی!ان دونوں پر رحم فرما کہ میں ان پر رحم کرتا ہوں۔

(بخاری،4/101،حدیث: 6003)

اپنی نواسی سے محبت :ہمارے آقا ﷺ کو اپنی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ ُعنہا سے بڑی محبت تھی۔نماز میں بھی ان کو اپنے کندھے پر رکھ لیتے،جب رکوع کرتے تو اتار دیتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو پھر سوار کرلیتے۔ایک بار نجاشی نے حضور ﷺ کی خدمت میں ایک جوڑا بھیجا جس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی،انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا۔حضور ﷺ نے وہ انگوٹھی حضرت اُمامہ رضی اللہ ُعنہا کو عطا فرمائی۔( شرح زرقانی مع مواہب لدنیۃ،4/321)نیز حضور ﷺ کو مقدس بیویوں میں سے اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ ُعنہا سے بہت محبت تھی۔( سیرتِ رسولِ عربی،ص606)

اللہ کریم ہمیں پیارے آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنے،سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے،ہمیں حضور کا حقیقی عشق عطا فرمائے اور عافیت کے ساتھ آپ کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ