اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون ؟ فرمایا: تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا ؟ فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

والدین کے حقوق زندگی میں: دل و جان سے ان کی عزت و احترام کرنا (اگر چہ وہ کافر ہوں)۔ حسن سلوک اور محبت والفت کا معاملہ کرنا۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا۔ ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر دانی کرنا۔ ان کی حاجات و ضروریات پوری کر کے انہیں راحت پہنچانا۔ ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیے دعا کرنا۔ کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔

والدین کے حقوق انتقال کے بعد: ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا (بشرطیکہ والدین مسلمان ہوں)۔ ایصال ثواب کرنا (بشرطیکہ والدین مسلمان ہوں)۔ ان پر کسی کا قرض ہو تو ادا کرنا۔ ان کی وصیت پوری کرنا۔ ان کے رشتہ داروں اور دوست احباب کا اکرام کرنا۔ ان کے اعزہ، اقارب اور دوستوں کی معاونت کرنا۔ وقتا فوقتا ان کی قبر کی زیارت کرنا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کا اکرام کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دین اسلام بہت خوبصورت دین ہے۔ہمارا دین جہاں ہمیں حقوق العباد کی تلقین کرتا ہے وہاں والدین کے حقوق ادا کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے اگر قرآن حدیث کا بغور مطالعہ کریں تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتا چلتا ہے کہ اللہ پاک نے کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ پاک کے حکم کے بعد ماں باپ کے حکم کی تاکید آئی ہے کہ انسان والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔

والدین سے حسن سلوک کرنا: دین اسلام ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

زیادہ احسان کا مستحق: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ! سب سے زیادہ حسن صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے) انہوں ے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضور اقدس ﷺ نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔ (بخاری، 4/ 93، حدیث: 5971)

دعائے مغفرت کرنا: والدین کا حق ہے کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد اولاد ان کے لیے دعائے مغفرت کرے۔حضرت ابو اسید بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (کنز العمال، 8/192، حدیث: 45441)

والدین کی اطاعت: والدین کا حق ہے کہ اولاد انکی اطاعت کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔ (معجم اوسط، 1/ 641، حدیث: 2255)

والدین کے ساتھ احسان: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

والدین کی خوب خدمت کرنا: ہمارا دین ہمیں والدین کی خوب خدمت کرنے کا درس دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ! کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

والدین کا ادب و احترام: ہمارا دین ہمیں والدین کے ساتھ ادب احترام سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔ والدین سے گفتگو میں ہمارا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ نظریں جھکی ہوئی ہوں، انداز میں نرمی ہو کیونکہ جو جتنا ادب کرے گا اتنا فیض پائے گا۔

والدین کی نافرمانی کی سزا: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1) ماں باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث۔ (3) مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم الاوسط، 2/ 43، حدیث: 2443)

آپ ﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں مل جائے گی۔ (شعب الایمان، 6/197، حدیث: 7890)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔ آمین


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی بیٹا  یا بیٹی اپنے والدین کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا، مگر یہ کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کردے۔ (مسلم، ص 624، حدیث:3799)

انسان اس دنیا میں اپنے وجود کیلئے ذات باری تعالی کے بعد سب سے زیادہ محتاج والدین کا ہے کوئی بھی بچہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو گوشت و پوست کا ایک ننھا سا وجود ہوتا ہے جس میں نہ بولنے کی طاقت ہوتی ہے، نہ چلنے پھرنے کی سکت، اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کھاپی سکے، ایسے وقت میں ماں کا وجود اسکے لئے ایک بڑی نعمت ہوتی ہے، وہ ہر لمحے اسکی نگہبانی کرتی ہے اسے دودھ پلاتی اور اسکی پرورش و نگہداشت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ باپ کی شفقت اسے زمانے کے سرد و غم سے بچاتی ہے اس کی محبت کی چھاوں اسے ہر سختی، تکلیف اور رنج سے دور کردیتی ہے، ان دونوں کی پرورش کے نتیجے میں جب وہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اسے اس مقام تک پہنچانے والے اللہ تعالی کے بعد اسکے والدین ہیں۔

اسے اس مقام تک پہنچانے والے والدین نے اپنے فرض کو پورا کردیا، اب انکے کچھ حقوق میں اور یہ حقوق اتنے اہم ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے حق عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔ اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔

ماں باپ کے احسان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ ان میں سے چند اہم حقوق یہ ہیں:

1۔ طاعت و فرمانبرداری: اگر والدین کسی ایسے کام کا حکم نہیں دےرہے ہیں جس میں اللہ تعالی کی معصیت ہے یا کسی بندے پر ظلم اور اسکی حق تلفی ہےتو انکی اطاعت واجب ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ: اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت کی تکمیل والدین کی اطاعت میں ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی والدین کی نافرمانی میں ہے۔ (شعب الایمان، 6/177، حدیث:7830)

2 ۔ تعظیم و توقیر: قول و فعل کے ذریعہ والدین کی توقیر انکا واجبی حق ہے حتی کہ انکے سامنے اف کر دینے میں انکی بے حرمتی اور انکے ساتھ بدسلوکی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

3۔ خدمت: مالی اور بدنی دونوں ذریعہ سے حتی الامکان انکی مدد کرنا اور انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ میرے باپ میرا سارا مال لے لیتے ہیں، میں کیا کروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کاہے تمہاری سب سے پاک روزی تمہاری اپنے ہاتھ کی کمائی ہے اور تمہاری اولاد کا مال تمہاری کمائی میں داخل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

4۔ دعا: والدین جب اس دنیا سے جاچکے ہوں بلکہ اگر وہ بقید حیات ہوں تو بھی اولاد کی دعا کے سخت محتاج ہیں۔

ایک صحابی نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ والدین کی وفات کے بعد ان کا کیا حق میرے اوپر رہتا ہے؟ آپ نے فرمایا: انکے لئے دعا ئے مغفرت کرنا، انکے کئے گئے عہد و پیمان کو پورا کرنا، انکے دوست کی تعظیم کرنا اور وہ رشتہ داریاں جو والدین کے ذریعہ جڑتی ہیں انہیں باقی رکھنا۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

5۔ متعلقین کے ساتھ حسن سلوک: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق جوڑ کر رکھے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

آخر رب پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے ان کے حقوق کو پورا کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


دنیا میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب و سنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔

حدیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق پورے نہ کرنے والوں کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1) ماں باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث۔ (3) مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، 2/43، حدیث: 2443)

والدین کے بہت سارے حقوق ہیں جن میں سے 5 حقوق یہ ہیں:

(1): والدین کے ساتھ احسان کرنا: ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدر توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرور کائنات ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسول اللہ! کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) والدین سے نرم دلی سے بات کرنا: والدین اگر اولاد کو کسی بات پر جھڑک دیں تو بھی اولاد کو آگے سے زبان درازی نہیں کرنی چاہیے قرآن پاک میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے، اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حضرت امام احمد بن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: سرور کائنات ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: معراج کی رات میں نے کچھ لوگ دیکھے جو آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤں کو برا بھلا کہتے تھے۔ (الزواجرعن اقتراف الکبائر، 2/ 139)

(3)والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ شریف پڑھنا اتنی آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو اپنے ماں باپ دونوں یا ایک کی قبر پر ہر جمعہ کے دن زیارت کے لئے حاضر ہو وہ بخش دیا جاتا ہے اور اسے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا لکھ لیا جاتا ہے۔(المعجم الاوسط،6/175، حدیث: 6114)

(4) ماں باپ کی نافرمانی سے بچے والدین جو بھی حکم دیں اس پر لبیک کہتے ہوئے فوراً عمل کریں اور نافرمانی جیسے کبیرہ گناہ سے بچے حدیث مبارکہ میں بھی اس کی سخت وعید بیان کی۔ ارشاد فرمایا: ہر گناہ کو اللہ پاک جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی و ایذا رسانی کو نہیں بخشتا بلکہ ایسا کرنے والے کو اس کے مرنے سے پہلے دنیا کی زندگی میں ہی جلد سزا دے دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/ 197، حدیث 7890)

(5) والدین کو ہمیشہ خوش رکھے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا والدین کی رضا میں اور اللہ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔ (شعب الایمان، 6/177، حدیث:7830) حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


پیاری اسلامی بہنو! والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں، بچپن میں انہوں نے ہی اس کی دیکھ بھال اور پرورش کی ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے، کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ اللہ پاک نےماں کے قدموں کے نیچے جنت بھی رکھی ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جنت کو راضی رکھیں۔

اسلامی بہنو! ﷲتعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی میں یہ سب باتیں شامل ہیں:

1۔ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے باعث تکلیف ہو۔

2۔ اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان کی خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔

3۔ ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے۔

4۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔

5۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ (تفسیر خازن، 1/66)

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کے والدین کو سلامت رکھے، ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے، انکو صحت و عافیت اور سلامتی و نیکیوں والی طویل زندگی سے نوازے، ہمیں انکی خدمت کرنے ان کا ادب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


والدین اللہ پاک کی عظیم نعمت ہیں۔ زندگی کا سکون انہی کے ساتھ ہے۔ والدین کا حق بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کا رشتہ اور تعلق سب سے زیادہ ہے اولاد کبھی والدین کا مکمل حق ادا نہیں کرسکتی لیکن اگر اولاد انہی کی آنکھوں کا نور بن جائے اور رضا حاصل کرلے تو اجر کی حقدار ہوگی۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا مگر اس وقت جب اپنے باپ کو غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے۔ (مسلم، ص 624، حدیث:3799) اور فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک اور احسان کرنا نماز روزہ حج وعمرہ اور جہاد سے بھی افضل ہے۔اور فرمایا لوگ جنت کی خوشبو پانچ سو برس سے سونگھیں گے مگر والدین کا نافرمان اور رشتے داروں سے تعلق توڑنے والا محروم رہے گا۔(معجم اوسط، 4/187، حديث: 5662)

والدین کے حقوق کیا ہیں آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو سلمہ کہ ایک آدمی نے آکر عرض کی ! یارسول اللہ ﷺ کوئی ایسی نیکی ہے جو میں اپنےوالدین کے لیے ان کی وفات کے بعد کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کے لیے دعا کرو بخشش طلب کرو، ان کے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرو ان کے دوستوں کی عزت کرو اور ان کے رشتے داروں کی سے صلہ رحمی کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اگر والدین حیات ہیں تو ان کی زندگی میں بھی ان کے حقوق ہیں ان کی خدمت کی جائے ان سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کیا جائے اور ان کے لیے عافیت کی دعا کی جائے ان کے ساتھ نیکی کی جائے۔اور اگر وفات پا جائیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ایصال ثواب اور صدقہ وخیرت کرتا رہے۔ جیسا کہ فرمان آخری نبی ﷺ ہے: جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کرتا ہے تو اس کے والدین کو اس کا اجر ملتا ہے اور ان کے اجر میں کمی کیے بغیر اس آدمی کو بھی ان کے برابر اجر ملتا ہے۔

اللہ کریم ہمیں والدین کی خدمت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کے ساتھ پیارا پیارا مدینہ دیکھائے۔ آمین


ہر مرد و عورت پر اپنے والدین کے حقوق ادا کرنا فرض ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

احادیث میں بھی والدین کے حقوق کا ذکر ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (مفہوم) جو اپنے والدین کی فرمانبرداری کرے انکو خوش کرے انکے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس حالت میں فوت ہو کہ اسکے والدین اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اولاد کا انداز اپنے والدین کے سامنے ایسا ہونا چاہیے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے ہو مگر افسوس آج کل تو معاملہ اسکے برعکس ہی نظر آتا ہے۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی فرمابرداری کی جائے مثلا جو کام شریعت کے مطابق وہ آپ سے کہیں اس کو فورا بجا لائے اور جو کام شریعت کے خلاف وہ کہے تو اس کام میں انکی فرمابرداری نہیں کی جائے گی اور ان کے احسانات کو یاد رکھا جائے کہ ہماری خاطر وہ کتنی قربانیاں دیتے اور اذیتیں برداشت کرتے ہیں اور خود چاہے جس طرح مرضی گزارا کرے مگر ہماری خواہشات کو پورا کرتے ہیں انکی باتوں کو توجہ سے سنا جائے اور جب وہ بات کر رہے ہوں تو انکی بات کو بیچ میں نہ کاٹا جائے کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے اور والدین کے سامنے موبائل استعمال نہ کیا جائے۔

والدین کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کیا جائے، والدین جب تشریف لائیں تو ادبًا انکی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجائے، والدین اگر غریب ہو اور آپ کی خواہشات کو پورا نہ کرسکتے ہو تو ان کو تنگ نہ کیا جائے انکو طعنہ نہ دیا جائے بلکہ جیسے حالات ہو انکے مطابق گزارا کر لیا جائے، والدین اگر مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی تعظیم واجب ہے، انکے دوستوں کی بھی تعظیم کرنی چاہیے، انکو ہمیشہ اپنی دعاوں میں یاد رکھنا چاہیے، انکی طرف پاوں یا پیٹھ کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے، انکی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھتے ہوئے انکے حکم اور مشورے کو قبول کیا جائے، والدین سے دعائیں لیتے رہنا چاہیے۔

اسلام نے سب کچھ ہمارے لیے بیان کر دیا ہے اور والدین کی نافرمانی کے سلسلے میں سزائیں بھی مقرر کر دی ہیں لیکن ان سب کے باوجو د اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو بہت افسوس کے ساتھ یہ نتیجہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اولاد اپنے بزرگ والدین کی نافرمان ہی نہیں بلکہ ان کو ایذا رسانی میں مبتلا کرتے ہیں بہت سے والدین کو تو گھر سے بھی بے گھر ہونا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی اولاد کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب کے اکثر ممالک اور ہمارے ملک کے کافی شہروں میں تو بیت عجائز کے نام سے ایک محکمہ ہی شروع ہو گیا ہے جس میں اولاد اپنے والدین کو داخل کر کے سکون سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے کہ اگر ہمارا یہی رویہ اپنے بزرگ والدین کے ساتھ رہا تو وہ دن دور نہیں کی ہمارے خلف پر اپنے والدین کی تعظیم سے بالکل ہی غافل رہیں گے اور معاشرہ والدین کی دعاؤں کے بغیر ترقی کی راہ پر بھی گامزن نہیں ہوسکتا۔

اور اگر کوئی کامیابی حاصل ہوتو اسے اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اللہ کا کرم اور والدین کی دعاوں کا اثر تصور کرنا چاہیے، والدین پر اگر کوئی فرض عبادت مثلا نمار اور ماہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوتو انکو ادا کر دینا چاہیے اپنے والدین کو وقت دینا چاہیے انکے پاس بیٹھنا چاہیے اگر وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جو ہمیں پسند نہ آئے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اف تک بھی نہیں کرنا چاہیے۔


والدین کے حقوق کی بات کی جائے تو اس کی اہمیت مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی ہر سطح پر واضح نظر آتی ہے۔ اسلام میں والدین کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرے، خاص طور پر جب وہ عمر رسیدہ ہوں۔والدین کا احترام صرف لفظوں میں نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی ظاہر ہونا چاہیے۔ ان کی روزمرہ کی ضروریات کا خیال رکھنا، اور ان کے ساتھ وقت گزارنا والدین کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

عزت و احترام والدین کا عزت و احترام کرنا ہر بچے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے تجربات اور قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے والدین کے ساتھ محبت اور خلوص کا برتاؤ بھی ان کے حقوق میں سے ہے۔ ایک مسکراہٹ، شفقت بھری بات، اور دل سے نکلی ہوئی دعا والدین کے دل کو سکون دیتی ہے۔ وہ بھی انسان ہیں اور ان کو بھی جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ہم والدین کی عزت اور حقوق کا خیال رکھیں تو یقیناً ہماری اپنی زندگیاں بھی سکون اور خوشحالی سے بھر جائیں گی۔ ہماری نسلیں بھی یہی اقدار سیکھیں گی اور اس طرح معاشرے میں باہمی احترام اور محبت کی فضا قائم ہو گی۔

خدمت و دیکھ بھال: والدین کی خدمت کرنا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ یہ ہمارے لیے عظیم ثواب کا ذریعہ بھی ہے۔ خاص طور پر جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کی جسمانی و طبی دیکھ بھال کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

بات چیت میں شائستگی: والدین سے ہمیشہ نرمی اور محبت بھرے لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ ان کی باتوں کو توجہ سے سننا چاہیے۔

معاشرتی تعلقات کی حفاظت: والدین کے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اس سے نہ صرف والدین کی معاشرتی حیثیت بلند ہوتی ہے بلکہ ان کی خوشی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

عقیدت و محبت: والدین کو ان کی قدر و منزلت کا احساس دلانے کے لیے بچوں کا ان سے محبت و عقیدت سے پیش آنا بہت ضروری ہے۔ ان کی خوشیوں کا خیال رکھنا اور انہیں اہمیت دینا ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

اچھی صحبت فراہم کرنا: والدین کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی تنہائی کو دور کرنا بچوں کا فرض ہے۔ ان کے ساتھ اچھے لمحات شیئر کرنا اور مشکل وقت میں ساتھ دینا ان کی عمر کے اس دور میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔


معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول کے بعد انسان پر اس کے والدین کا حق ہے۔ وہ محض اس کو وجود میں لانے کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ اس کی پرورش اور تربیت کا بھی سامان کرتے ہیں۔ دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ہے جو اپنی راحت کو اولاد کی راحت پر قربان کر دیتے ہیں۔ حقوق العباد میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے۔والدین کی شفقت اولاد کیلئے رحمت باری کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو انہیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے۔ انسانیت کا وجود اللہ تعالی کے بعد والدین بھی کا مرہون منت ہے۔ والدین کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ یہاں ذکر کیے گئے ہیں۔

1۔ حسن سلوک: محبت فطری تقاضا ہے۔ والدین اولاد کی محبت کے پہلے حق دار ہیں۔ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے اچھے رویے سے ان سے محبت کا اظہارکرے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی ا گرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے فرمایا نعم، الله اکبر و اطیب یعنی ہاں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856) اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر قرآن پاک میں اس طرح فرمایا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

2۔اطاعت فرمانبرداری: اولاد کے ذمے یہ ہے کہ والدین کے ہر حکم بجالائیں اور انکی اطاعت کریں اور اگر وہ ایسا حکم دیں جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو ان کی اطاعت اس معاملے میں ضروری نہیں ہے۔ اللہ پاک پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل آیت 24 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جو ماں باپ کو خوش رکھتا ہے جوبد نصیب ماں باپ کو ناراض کرتا ہے اس کیلئے بربادی ہے۔ والدین کا کہنا ماننے کی ایک عظیم مثال حضرت اسماعیل نے قائم کی اور اپنے والد کے حکم کی تعمیل میں قربانی کے لئے تیار ہو گئے۔

3۔ بے رخی اختیار نہ کرو: اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بعد سب سے زیادہ احسانات انسان پر اس کے والدین کے ہیں اولاد ان احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ اولاد کو اپنے والدین کی شکر گزاری کرنی چاہیے حضرت عبد الله بن عمر نے کہا کہ حضور ا کرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔ فرمایا: ہاں (اسکی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکی ماں کوگالی دیتا ہے۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

4۔ والدین کا شکر ادا کرنا: الله اور رسول کے بعد انسان پر سب سےبڑا احسان والدین کاہوتا ہے جنہوں نے پیدائش، پرورش اور تربیت سے جو مصائب برداشت کیے ہیں کوئی دوسرا اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لئے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ لقمان آیت 14 میں ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-ترجمہ: میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا۔

5۔ دعائے مغفرت: والدین کی وفات کے بعد یہ اولاد کا حق ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کی جائے اس سےجنت میں ان کے درجات بلندہوتے ہیں۔ ہمیں نماز میں بھی یہ دعا سکھائی گئی ہے جیسا کہ اللہ پاک سورۂ ابراہیم آیت 41 میں ارشاد فرماتا ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ ترجمہ کنز الایمان: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔


قرآن کریم کی آیت طیبہ میں توحید کے بعد جن کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے وہ والدین ہیں، حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا عرض کی: اے اللہ کے رسول میرے احسان کا زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا تیری ماں اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، اس نے عرض کی: پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، پھر عرض کی: اس کے بعد؟ فرمایا: تیرا باپ۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)

اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ تمام لوگوں سے زیادہ کسی آدمی کے احسان کے زیادہ حقدار اسکے والدین ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے تین دفعہ فرمایا کہ ذلیل و رسوا ہو اس کی خاک ناک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلود ہو۔پوچھا گیا ایسا کون بد بخت ہے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ جو اپنے والدین میں سے ایک یا دنوں کو بڑھاپے میں پائے تو ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

حضرت اسما بنت ابوبکر کی والدہ مشرکہ تھی وہ اپنی بیٹی کو ملنے آئی تو حضرت اسما نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میری والدہ آئی ہے حالانکہ وہ اسلام سے اعراض کرنے والی ہے کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں تو حضور نے فرمایا کہ تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر۔

علمائے کرام فرماتے ہیں: والدین کے بیٹے پر دس حقوق ہیں انہیں کھانا کھلانا خدمت کرنا جب وہ بلائیں تو ان کو جواب دینا چلنے میں ان سے پیچھے چلنا ان کے لیے دعائے مغفرت کرناان کی پسند کو ترجیح دینا نرمی سے گفتگو کرنا حکم ماننالباس پہنانا ان کی وفات کے بعد ان کو ایصال ثواب دینا۔

حضرت عبدالله بن عمر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو گالی گلوچ کرنا کبیرہ گناہوں سے ہے تو صحابہ نے عرض کی کیا کوئی آدمی اپنے والدین کا گالی کرتا تو فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی نکالتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دےگا وہ کسی کی ماں کو برا بھلا کہےگا تو وہ اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حقوق کی اہمیت! دین اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ہر ایک کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور اس پر خوشخبری و وعیدات بیان کی گئی ہیں کہ حقوق اللہ پر بھی اتنی وعیدات نہیں ہیں جتنی حقوق العباد پر بیان کی گئی ہیں چاہے کوئی بادشاہ ہے چاہے فقیر حقوق العباد کا معاملہ سب کے لیے یکساں بیان کردیاگیا ہے اسی طرح والدین کے حقوق بھی اولاد پر لازم ہیں کہ والدین بغیر کسی لالچ و طمع کے اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں اور پھر ان کے ایجوکیشنل مراحل کا خیال رکھتے ہیں دن رات ایک کرکے کماتے ہیں اور اولاد پر خرچ کرتے ہیں بلکل اسی طرح اولاد پر بھی والدین کے حقوق لازم ہیں کہ اولاد والدین کو اف تک نہیں کہہ سکتی والدین کو اف کہنا علمائے کرام نے حرام قرار دیا ہے والدین کے حقوق کا خیال رکھنا فرض ہے والدین کے بے شمار حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1)اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے ماں باپ کو تکلیف ہرگز نہ دیں اگرچہ والدین اولاد پر زیادتی بھی کریں تب بھی فرض ہے کہ والدین کا ہرگز دل نہ دکھائیں۔

2)اپنے ہر عمل کے ذریعے والدین کی تعظیم و تکریم کرے ہمیشہ ہرحال میں ان کی عزت و حرمت کا خیال رکھے۔

2)ہر جائز کام میں ان کی فرماں برداری کرے(ہاں وہ معاملات جن کی شریعت اجازت نہیں دیتی ان معاملات میں ہرگز کسی کی اطاعت نہ کرے جیسے والدین فرض روزے چھوڑنے کا کہیں یا داڑھی منڈانے کا کہیں تو ہرگز ان کی اطاعت نہ کرے)۔

3)اگر ماں باپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو جان و مال کے ذریعے ان کی خدمت کرے۔

4)اگر ماں باپ اولاد کے مال میں سے بغیر اجازت کچھ لے لیں تو ہرگز برا نہ مانیں بلکہ اس پر خوشی کااظہار کریں کہ ماں باپ نے ان کی چیز کو اپنی چیز سمجھا ہے۔

5)ماں باپ انتقال کرجائیں تو ان کے لیے خوب ایصال ثواب کرے ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جایا کریں ان کی مغفرت کی ہمیشہ دعا کیاکریں(ہاں اگر والدین معاذاللہ ثم معاذاللہ کافر ہوں تو ان کے لیے ایصال ثواب نہیں کرسکتے نہ ہی دعائے مغفرت کرسکتے ہیں اگر کرے گا تو کافر ہوجائے گا)ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ میل جول رکھے ان کے ساتھ بھلائی والہ سلوک کرے ماں باپ کے ذمے جو قرض ہو وہ ادا کرے اور جن کاموں کی انہوں نے وصیت کی ہوان کو پورا کرے(ہاں اگر ایسے کام کی وصیت کی ہو جو شرعاً جائز نہ ہو جیسے کہیں کہ میرے جنازے میں فلاں کو نہ آنے دینا یا میرا منہ فلاں کو نہ دیکھنے دینا یہ قطع رحمی ہے جوکہ حرام ہے)۔ (جنتی زیور، ص 92تا 94)


اللہ تبارک و تعالی انسان کے وجود کا سبب حقیقی ہے پر سبب ظاہری والدین ہیں۔ اسکے ساتھ والدین اولاد کی پرورش کے لیے بےشمار تکالیف و مشکلات جھیلتے ہیں ۔ایک طرف ماں پیٹ میں رکھنے اور دودھ پلانے میں تکالیف اٹھاتی ہے تو دوسری طرف باپ اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے طلب معاش میں کوشاں رہتا ہے۔ اسی لئے والدین کے حقوق سے انسان کبھی بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔قرآن و احادیث میں بھی جگہ جگہ والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے 05 حقوق پیش خدمت ہیں۔

1۔ حسن سلوک: قرآن کریم فرقان حمید میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اس سے والدین کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اولاد کو چاہیے کہ انکا ادب و احترام کرے،انکے ہر جائز حکم کی تعمیل کرے،انکی نافرمانی سے بچے، خدمت کرے،ان پر خرچ کرنے میں بقدر استطاعت کمی نہ کرے۔

2۔ ادب و تعظیم: رب تعالی فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! جب والدین کو اف کہنے سے منع کر دیا گیا تو دل آزاری کا گناہ کتنا ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے: سب گناہوں کی سزا رب تعالیٰ قیامت کیلئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کہ اس کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔ لہذا کبھی کوئی ایسا کلمہ کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالیں جس سے انکا دل دکھے یا یہ سمجھا جائے کہ انکی طرف سے اسکی طبیعت پر کچھ بوجھ ہے۔ ہمیشہ ادب کیساتھ ان سے کلام کریں۔ان سے نظریں ملا کر بات نہ کریں اور نہ ہی اونچی آواز میں بات کریں۔ ماں باپ جب کھڑے ہوں تو ان کے لیے تعظیما کھڑے ہو جائیں۔

3۔ زیارت کرنا: والدین کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اسکے لیے ہر نظر کے بدلے حج مبرور (یعنی مقبول حج) کا ثواب لکھتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کی اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے۔فرمایا ہاں اللہ سب سے بڑا آور اطیب ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

انکی زیارت کرتا رہے اور انکے وصال کے بعد ہر جمعہ انکی قبر پر حاضر ہو کر تلاوت قرآن کرے اورایصال ثواب کرے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جو شخص روز جمعہ اپنے والدین یا ایک کی زیارت قبر کرے بخش دیا جائے۔ (المعجم الاوسط،6/175، حدیث: 6114)

4۔ والدین کے دوستوں کیساتھ حسن سلوک: حدیث مبارکہ میں ہے: باپ کیساتھ نیکوکاری سے یہ ہے کہ تو اسکے دوستوں سے نیک برتاؤ کرے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 54) یعنی انکی خوشی، غمی میں شریک ہونا، ضرورت پڑنے پر انکی مدد کرنا۔جب کبھی گھر میں کوئی اچھی چیز بنے انکو بھیجنا۔کیونکہ جو والدین کے دل کے قریب ہوتے ہیں انکو خوش کرنا والدین کے دل میں راحت پہنچانا ہے اس لئے ہمیشہ ان کا خیال رکھے۔

5۔ دعا کرنا: والدین کیلئے دعا کرنے کا خود رب تعالی نے حکم دیا ہے فرماتا ہے: وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

اولاد کو چاہیے کہ والدین کیلئے روزانہ دعا کرے۔کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے: آدمی جب ماں باپ کیلئے دعا کرنا چھوڈ دیتا ہے تو اسکا رزق قطع ہو جاتا ہے۔ (کنز العمال، 16/201، حدیث: 44548)

والدین اگر حیات ہوں تو صحت و تندرستی،ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرے اور اگر وصال کر گئے ہوں تو قبر میں راحت، قیامت کی پریشانیوں سے نجات،بے حساب بخشش، جنت میں داخلے کی دعا کرے۔ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: ماں باپ کیساتھ حسن سلوک سے یہ ہے کہ اولاد انکے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (کنز العمال، 16/200، حدیث:45441)

علمائے کرام نے والدین کیلئے دعا کرنے کو ان کا شکر ادا کرنا قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: جس نے پنج گانہ نمازوں کے بعد والدین کیلئے دعا کی تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔ پس ہمیں چاہیے کہ والدین کیلئے دعائیں کرتے رہیں۔

یاد رکھیں! اگر والدین کے حقوق میں کوئی کمی ہوئی ہو تو جب تک کہ تلافی ممکن ہو تلافی کرنا ضروری ہے۔لہذا اگر والدین کی حق تلفی کی ہو یا دل آزاری کی ہو تو ان سے معافی مانگنی بھی ضروری ہے۔

والدین کیساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تعلیم جس قدر اسلام نے دی ہے ویسی پوری دنیا کے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ باہر کے ممالک اولڈ ہاوس سے بھرے پڑیں ہیں۔لیکن آج کا ایک مسلم طبقہ بھی دین سے دوری کی بنا پر والدین کیساتھ ناروا سلوک کرتا ہے۔خاص طور پر جب وہ بزرگ ہوتے ہیں۔ ایسی اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب ہم بچپن میں کمزور تھے تب انہوں نے ہمیں سنبھالا اور ہماری پرورش کی ہم پر خرچ کیا اب انکو ہماری ضرورت ہے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا فرض نبھائیں، کیونکہ والدین کی ساری امیدیں اولاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے عقوق والدین سے بچائے۔