اسلام نے والدین کے کتنے مراتب و حقوق رکھے ہیں یہ بات معاشرے میں کسی سے مخفی نہیں اور اولاد پر جو حقوق ان کے ہیں وہ بھی واضح طور پر بیان کردیئے ہیں اگر ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم صادر فرمایا ہے اور انسان کو اس کا پابند بنایا ہے، جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔

انسان والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پا لو گے اور اس کے برعکس اگر تم ان کی نافرمانی اور ایذا رسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

حدیث شریف میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے۔

ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں صحابی نے تیسری مرتبہ پوچھا اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ کونسا عمل اللہ پاک کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز کو وقت پر ادا کرنا میں نے کہا پھر فرمایا: ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا میں نے کہا پھر فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا میں اگر اور بھی پوچھتا تو آپ ﷺ جواب دیتے۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ یہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے لیے یوں دعا کرتے رہنا کہ اے ہمارے پروردگار! تو ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 24)

ماں باپ کو گالی دینا بڑا گناہ ہے۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)ماں باپ میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

1۔دل و جان سے ان کی عزت واحترام کرنا (اگرچہ وہ کافر ہوں)۔

2۔ حسن سلوک اور محبت و الفت کا معاملہ کرنا ۔

3۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا۔

4۔ ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر کرنا۔

5۔ ان کی حاجات و ضروریات پوری کر کے انہیں راحت پہنچانا۔

6۔ ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیےدعا کرنا ۔

7۔ کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔

ابو اسید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ میں سے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا: کہ یارسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے بھی حق ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ان کے لیے خیر و رحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا، اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اور پرورش وغیرہ پر جو بے انتہاء تکالیف برداشت کرتے ہیں، اس میں ان کے پیش نظر ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑھاپے کے ایام میں اولاد ان کا سہارا بنے اور محتاجی وبے بسی کے ان دنوں میں ہر طرح سے ان کا خیال رکھے۔

ماں باپ کا حق ماننے کی تاکید۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-21، لقمن: 14) ترجمہ: میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا۔

فرمان باری تعالیٰ: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے فقط والدین کے متعلق یہ6 احکام بیان فرمائے ہیں:

(1) ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو یعنی ہر طرح سے والدین کی خدمت گاری کرو کیونکہ وہ تمہارے وجود اور زندگی کا ظاہری سبب ہیں۔ (روح البیان، 5/ 146)

(2)جب والدین بڑھاپے کی حالت کو پہنچ جائیں توانہیں اف تک نہ کہو: یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے طبیعت پر کچھ گرانی (بوجھ) ہے۔

(3) یاد رہے کہ تعظیم اور توہین کادارو مدارعرف پر ہے، لہٰذا جو کلمہ عرف میں والدین کی توہین شمار ہوتا ہے وہ والدین کے لیے استعمال کرناان کی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ (4)والدین کو جھڑکنا نہیں۔ (5)والدین سے خوبصورت، نرم بات کہنا۔ (6)والدین کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھو۔ (7)والدین کے لیے دعا کرو۔

حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا: اللہ کی بارگاہ میں کونسا عمل زیادہ پسندیدہ ہے؟ ارشاد فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کی: پھر کونساہے؟ ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے عرض کی: پھر کونسا ہے ؟ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اولاد پر ماں باپ کے کئی حقوق لازم ہیں۔ چنانچہ حضرت فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والدین کے اولاد پر دس 10حقوق ہیں: (1) جب انہیں کھانے کی ضرورت ہوتو انہیں کھلائے۔ (2) کپڑوں کی ضرورت ہوتو حسب استطاعت کپڑے پہنائے۔ (3) انہیں خدمت کی ضرورت ہوتو خدمت کرے۔ (4) وہ جب بلائیں تو جواب دے اور حاضر ہو جائے۔ (5) گناہ اور غیبت کے علاوہ ہر کام میں ان کی فرمانبرداری کرے۔ (6) ان سے نرم لہجے میں بات کرے، سختی سے کلام نہ کرے۔ (7) انہیں نام سے نہ پکارے۔ (8) ان کے پیچھے چلے۔ (9) جو چیز اپنے لیے پسند کرے ان کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے اور جو اپنے لیے ناپسند کرے اسے ان کے لیے بھی ناپسند کرے۔ (10) جب بھی اپنے لیے دعا مانگے ان کے لیے بھی دعائے مغفرت ضرور کرے۔ (عمدۃ القاری، 4/ 20، تحت الحدیث: 527)

الله کریم عقوق (یعنی والدین کی نافرمانی ) سے بچائے اور ادائے حقوق کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی عبادت و بندگی کے متصل بعد انسان کو والدین کیلئے حسن سلوک کا حکم دیا ہے دین اسلام میں والدین کیساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔یعنی مخلوق خدا میں حق والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے،والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اپنا حق ذکر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرنا اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا،اسکے بعد والدین کا حق ذکر فرمایا کہ ان سے اچھا برتاؤ کرنا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے حق کے بعد سب سے پہلا حق والدین کا ہے،یعنی حقوق العباد میں سب سے مقدم حق والدین ہے۔جس طرح سب کا معبود حقیقی ایک ہی ہے اسی طرح ہر شخص کا باپ اور ماں بھی ایک ہی ہے،یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالق حقیقی کیساتھ۔

والدین کے حقوق بےشمار ہیں چنانچہ چند ان میں سے ملاحظہ ہو:

(1)پہلی بات یہ کہ تم نے انہیں اف تک نہیں کہنا، اف سے مراد ہر تکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے۔

(2)۔دوسری بات یہ ہے کہ تم نے انہیں جھڑکنا بھی نہیں۔یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے۔اگر اولاد کو والدین کی کسی بات پر غصہ بھی آئے تو برداشت کرے،انہیں نہ جھڑکے اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کرے۔

( 3)تیسری بات یہ کہ والدین سے بات کرو تو ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو۔

(4)۔چوتھی بات والدین پر رحم و ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی و انکساری کیساتھ جھک کر رہو۔

(5) پانچویں بات یہ کہ ان سے اچھے برتاؤ کیساتھ ساتھ ان کیلئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے میرے رب!ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے (محبت وشفقت کیساتھ) بچپن میں میری پرورش کی۔

والدین اگرچہ غیر مسلم بھی ہوں تو انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں والدین سے حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم ملاحظہ ہو، چنانچہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کا حکم سمجھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ ان سے ادب و احترام سے پیش آئیں ان پر اپنا مال خرچ کریں اور انکی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی تلاش کریں۔

الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کو راضی رکھنے اور ان کے تمام حقوق ادا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے اور ہمارے والدین کا سایہ شفقت ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان میں جو ہمارے لئے سب سے انمول نعمت ہے وہ ہمارے والدین ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد تو والدین کو اولڈ ہاوس( Old House) تک پہنچادیتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں الله پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے الله پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا رسول الله! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

والدین کے حقوق: دل و جان سے ان کی عزت و احترام کرنا (اگر چہ وہ کافر ہوں)۔ حسن سلوک اور محبت و الفت کا معاملہ کرنا۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا۔ ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر دانی کرنا۔ ان کی حاجات و ضروریات پوری کر کے انہیں راحت پہنچانا۔ ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیے دعا کرنا۔ کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔

انتقال کے بعد حقوق: ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔ ایصال ثواب کرنا۔ ان پر کسی کا قرض ہو تو اداء کرنا۔ ان کی وصیت پوری کرنا۔ ان کے رشتہ داروں اور دوست احباب کا اکرام کرنا۔ ان کے اعزہ، اقارب اور دوستوں کی معاونت کرنا۔ وقتا فوقتا ان کی قبر کی زیارت کرنا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کا احترام کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے۔ وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے باعث تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔ (خازن، 1/66)

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے اپنے حق کے فورا بعد حق والدین کو بیان فرمایا۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح سب کا معبود حقیقی ایک ہی ہے اسی طرح ہر شخص کا باپ اور ماں بھی ایک ہی ہے،یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالق حقیقی کیساتھ، اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے پانچ باتوں کو لازم قرار دیا ہے۔

پہلی بات یہ کہ تم نے انہیں اف تک نہیں کہنا، اف سے مراد ہر تکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے۔لہذا اولاد پر لازم ہیکہ والدین سے نرمی اور اچھے انداز میں بات کرے،یعنی والدین کی کوئی بات ناگوار بھی گزرے تو اولاد ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اف تک نہ کہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ تم نے انہیں جھڑکنا بھی نہیں۔یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے۔اگر اولاد کو والدین کی کسی بات پر غصہ بھی آئے تو برداشت کرے،انہیں نہ جھڑکے اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کرے۔

تیسری بات یہ کہ والدین سے بات کرو تو ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو۔

چوتھی بات والدین پر رحم و ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی و انکساری کیساتھ جھک کر رہو۔بعض حضرات کا کہنا ہےکہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتی ہے اور ہر طرح سے انکی حفاظت کرتی ہے،اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں تو اولاد ہر دم انکی حفاظت کرے،انکے سامنے نہایت عاجزی و انکساری کیساتھ رہے۔

اللہ کریم ہمیں والدین کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون ؟ فرمایا: تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا ؟ فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

والدین کے حقوق زندگی میں: دل و جان سے ان کی عزت و احترام کرنا (اگر چہ وہ کافر ہوں)۔ حسن سلوک اور محبت والفت کا معاملہ کرنا۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا۔ ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر دانی کرنا۔ ان کی حاجات و ضروریات پوری کر کے انہیں راحت پہنچانا۔ ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیے دعا کرنا۔ کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔

والدین کے حقوق انتقال کے بعد: ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا (بشرطیکہ والدین مسلمان ہوں)۔ ایصال ثواب کرنا (بشرطیکہ والدین مسلمان ہوں)۔ ان پر کسی کا قرض ہو تو ادا کرنا۔ ان کی وصیت پوری کرنا۔ ان کے رشتہ داروں اور دوست احباب کا اکرام کرنا۔ ان کے اعزہ، اقارب اور دوستوں کی معاونت کرنا۔ وقتا فوقتا ان کی قبر کی زیارت کرنا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کا اکرام کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دین اسلام بہت خوبصورت دین ہے۔ہمارا دین جہاں ہمیں حقوق العباد کی تلقین کرتا ہے وہاں والدین کے حقوق ادا کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے اگر قرآن حدیث کا بغور مطالعہ کریں تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتا چلتا ہے کہ اللہ پاک نے کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ پاک کے حکم کے بعد ماں باپ کے حکم کی تاکید آئی ہے کہ انسان والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔

والدین سے حسن سلوک کرنا: دین اسلام ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

زیادہ احسان کا مستحق: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ! سب سے زیادہ حسن صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے) انہوں ے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضور اقدس ﷺ نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔ (بخاری، 4/ 93، حدیث: 5971)

دعائے مغفرت کرنا: والدین کا حق ہے کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد اولاد ان کے لیے دعائے مغفرت کرے۔حضرت ابو اسید بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (کنز العمال، 8/192، حدیث: 45441)

والدین کی اطاعت: والدین کا حق ہے کہ اولاد انکی اطاعت کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔ (معجم اوسط، 1/ 641، حدیث: 2255)

والدین کے ساتھ احسان: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

والدین کی خوب خدمت کرنا: ہمارا دین ہمیں والدین کی خوب خدمت کرنے کا درس دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ! کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

والدین کا ادب و احترام: ہمارا دین ہمیں والدین کے ساتھ ادب احترام سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔ والدین سے گفتگو میں ہمارا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ نظریں جھکی ہوئی ہوں، انداز میں نرمی ہو کیونکہ جو جتنا ادب کرے گا اتنا فیض پائے گا۔

والدین کی نافرمانی کی سزا: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1) ماں باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث۔ (3) مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم الاوسط، 2/ 43، حدیث: 2443)

آپ ﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں مل جائے گی۔ (شعب الایمان، 6/197، حدیث: 7890)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔ آمین


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی بیٹا  یا بیٹی اپنے والدین کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا، مگر یہ کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کردے۔ (مسلم، ص 624، حدیث:3799)

انسان اس دنیا میں اپنے وجود کیلئے ذات باری تعالی کے بعد سب سے زیادہ محتاج والدین کا ہے کوئی بھی بچہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو گوشت و پوست کا ایک ننھا سا وجود ہوتا ہے جس میں نہ بولنے کی طاقت ہوتی ہے، نہ چلنے پھرنے کی سکت، اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کھاپی سکے، ایسے وقت میں ماں کا وجود اسکے لئے ایک بڑی نعمت ہوتی ہے، وہ ہر لمحے اسکی نگہبانی کرتی ہے اسے دودھ پلاتی اور اسکی پرورش و نگہداشت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ باپ کی شفقت اسے زمانے کے سرد و غم سے بچاتی ہے اس کی محبت کی چھاوں اسے ہر سختی، تکلیف اور رنج سے دور کردیتی ہے، ان دونوں کی پرورش کے نتیجے میں جب وہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اسے اس مقام تک پہنچانے والے اللہ تعالی کے بعد اسکے والدین ہیں۔

اسے اس مقام تک پہنچانے والے والدین نے اپنے فرض کو پورا کردیا، اب انکے کچھ حقوق میں اور یہ حقوق اتنے اہم ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے حق عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔ اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔

ماں باپ کے احسان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ ان میں سے چند اہم حقوق یہ ہیں:

1۔ طاعت و فرمانبرداری: اگر والدین کسی ایسے کام کا حکم نہیں دےرہے ہیں جس میں اللہ تعالی کی معصیت ہے یا کسی بندے پر ظلم اور اسکی حق تلفی ہےتو انکی اطاعت واجب ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ: اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت کی تکمیل والدین کی اطاعت میں ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی والدین کی نافرمانی میں ہے۔ (شعب الایمان، 6/177، حدیث:7830)

2 ۔ تعظیم و توقیر: قول و فعل کے ذریعہ والدین کی توقیر انکا واجبی حق ہے حتی کہ انکے سامنے اف کر دینے میں انکی بے حرمتی اور انکے ساتھ بدسلوکی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

3۔ خدمت: مالی اور بدنی دونوں ذریعہ سے حتی الامکان انکی مدد کرنا اور انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ میرے باپ میرا سارا مال لے لیتے ہیں، میں کیا کروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کاہے تمہاری سب سے پاک روزی تمہاری اپنے ہاتھ کی کمائی ہے اور تمہاری اولاد کا مال تمہاری کمائی میں داخل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

4۔ دعا: والدین جب اس دنیا سے جاچکے ہوں بلکہ اگر وہ بقید حیات ہوں تو بھی اولاد کی دعا کے سخت محتاج ہیں۔

ایک صحابی نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ والدین کی وفات کے بعد ان کا کیا حق میرے اوپر رہتا ہے؟ آپ نے فرمایا: انکے لئے دعا ئے مغفرت کرنا، انکے کئے گئے عہد و پیمان کو پورا کرنا، انکے دوست کی تعظیم کرنا اور وہ رشتہ داریاں جو والدین کے ذریعہ جڑتی ہیں انہیں باقی رکھنا۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

5۔ متعلقین کے ساتھ حسن سلوک: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق جوڑ کر رکھے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

آخر رب پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے ان کے حقوق کو پورا کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


دنیا میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب و سنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔

حدیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق پورے نہ کرنے والوں کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1) ماں باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث۔ (3) مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، 2/43، حدیث: 2443)

والدین کے بہت سارے حقوق ہیں جن میں سے 5 حقوق یہ ہیں:

(1): والدین کے ساتھ احسان کرنا: ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدر توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرور کائنات ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسول اللہ! کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) والدین سے نرم دلی سے بات کرنا: والدین اگر اولاد کو کسی بات پر جھڑک دیں تو بھی اولاد کو آگے سے زبان درازی نہیں کرنی چاہیے قرآن پاک میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے، اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حضرت امام احمد بن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: سرور کائنات ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: معراج کی رات میں نے کچھ لوگ دیکھے جو آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤں کو برا بھلا کہتے تھے۔ (الزواجرعن اقتراف الکبائر، 2/ 139)

(3)والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ شریف پڑھنا اتنی آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو اپنے ماں باپ دونوں یا ایک کی قبر پر ہر جمعہ کے دن زیارت کے لئے حاضر ہو وہ بخش دیا جاتا ہے اور اسے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا لکھ لیا جاتا ہے۔(المعجم الاوسط،6/175، حدیث: 6114)

(4) ماں باپ کی نافرمانی سے بچے والدین جو بھی حکم دیں اس پر لبیک کہتے ہوئے فوراً عمل کریں اور نافرمانی جیسے کبیرہ گناہ سے بچے حدیث مبارکہ میں بھی اس کی سخت وعید بیان کی۔ ارشاد فرمایا: ہر گناہ کو اللہ پاک جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی و ایذا رسانی کو نہیں بخشتا بلکہ ایسا کرنے والے کو اس کے مرنے سے پہلے دنیا کی زندگی میں ہی جلد سزا دے دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/ 197، حدیث 7890)

(5) والدین کو ہمیشہ خوش رکھے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا والدین کی رضا میں اور اللہ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔ (شعب الایمان، 6/177، حدیث:7830) حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


پیاری اسلامی بہنو! والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں، بچپن میں انہوں نے ہی اس کی دیکھ بھال اور پرورش کی ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے، کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ اللہ پاک نےماں کے قدموں کے نیچے جنت بھی رکھی ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جنت کو راضی رکھیں۔

اسلامی بہنو! ﷲتعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی میں یہ سب باتیں شامل ہیں:

1۔ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے باعث تکلیف ہو۔

2۔ اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان کی خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔

3۔ ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے۔

4۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔

5۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ (تفسیر خازن، 1/66)

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کے والدین کو سلامت رکھے، ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے، انکو صحت و عافیت اور سلامتی و نیکیوں والی طویل زندگی سے نوازے، ہمیں انکی خدمت کرنے ان کا ادب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


والدین اللہ پاک کی عظیم نعمت ہیں۔ زندگی کا سکون انہی کے ساتھ ہے۔ والدین کا حق بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کا رشتہ اور تعلق سب سے زیادہ ہے اولاد کبھی والدین کا مکمل حق ادا نہیں کرسکتی لیکن اگر اولاد انہی کی آنکھوں کا نور بن جائے اور رضا حاصل کرلے تو اجر کی حقدار ہوگی۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا مگر اس وقت جب اپنے باپ کو غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے۔ (مسلم، ص 624، حدیث:3799) اور فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک اور احسان کرنا نماز روزہ حج وعمرہ اور جہاد سے بھی افضل ہے۔اور فرمایا لوگ جنت کی خوشبو پانچ سو برس سے سونگھیں گے مگر والدین کا نافرمان اور رشتے داروں سے تعلق توڑنے والا محروم رہے گا۔(معجم اوسط، 4/187، حديث: 5662)

والدین کے حقوق کیا ہیں آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو سلمہ کہ ایک آدمی نے آکر عرض کی ! یارسول اللہ ﷺ کوئی ایسی نیکی ہے جو میں اپنےوالدین کے لیے ان کی وفات کے بعد کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کے لیے دعا کرو بخشش طلب کرو، ان کے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرو ان کے دوستوں کی عزت کرو اور ان کے رشتے داروں کی سے صلہ رحمی کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اگر والدین حیات ہیں تو ان کی زندگی میں بھی ان کے حقوق ہیں ان کی خدمت کی جائے ان سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کیا جائے اور ان کے لیے عافیت کی دعا کی جائے ان کے ساتھ نیکی کی جائے۔اور اگر وفات پا جائیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ایصال ثواب اور صدقہ وخیرت کرتا رہے۔ جیسا کہ فرمان آخری نبی ﷺ ہے: جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کرتا ہے تو اس کے والدین کو اس کا اجر ملتا ہے اور ان کے اجر میں کمی کیے بغیر اس آدمی کو بھی ان کے برابر اجر ملتا ہے۔

اللہ کریم ہمیں والدین کی خدمت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کے ساتھ پیارا پیارا مدینہ دیکھائے۔ آمین


ہر مرد و عورت پر اپنے والدین کے حقوق ادا کرنا فرض ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

احادیث میں بھی والدین کے حقوق کا ذکر ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (مفہوم) جو اپنے والدین کی فرمانبرداری کرے انکو خوش کرے انکے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس حالت میں فوت ہو کہ اسکے والدین اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اولاد کا انداز اپنے والدین کے سامنے ایسا ہونا چاہیے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے ہو مگر افسوس آج کل تو معاملہ اسکے برعکس ہی نظر آتا ہے۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی فرمابرداری کی جائے مثلا جو کام شریعت کے مطابق وہ آپ سے کہیں اس کو فورا بجا لائے اور جو کام شریعت کے خلاف وہ کہے تو اس کام میں انکی فرمابرداری نہیں کی جائے گی اور ان کے احسانات کو یاد رکھا جائے کہ ہماری خاطر وہ کتنی قربانیاں دیتے اور اذیتیں برداشت کرتے ہیں اور خود چاہے جس طرح مرضی گزارا کرے مگر ہماری خواہشات کو پورا کرتے ہیں انکی باتوں کو توجہ سے سنا جائے اور جب وہ بات کر رہے ہوں تو انکی بات کو بیچ میں نہ کاٹا جائے کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے اور والدین کے سامنے موبائل استعمال نہ کیا جائے۔

والدین کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کیا جائے، والدین جب تشریف لائیں تو ادبًا انکی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجائے، والدین اگر غریب ہو اور آپ کی خواہشات کو پورا نہ کرسکتے ہو تو ان کو تنگ نہ کیا جائے انکو طعنہ نہ دیا جائے بلکہ جیسے حالات ہو انکے مطابق گزارا کر لیا جائے، والدین اگر مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی تعظیم واجب ہے، انکے دوستوں کی بھی تعظیم کرنی چاہیے، انکو ہمیشہ اپنی دعاوں میں یاد رکھنا چاہیے، انکی طرف پاوں یا پیٹھ کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے، انکی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھتے ہوئے انکے حکم اور مشورے کو قبول کیا جائے، والدین سے دعائیں لیتے رہنا چاہیے۔

اسلام نے سب کچھ ہمارے لیے بیان کر دیا ہے اور والدین کی نافرمانی کے سلسلے میں سزائیں بھی مقرر کر دی ہیں لیکن ان سب کے باوجو د اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو بہت افسوس کے ساتھ یہ نتیجہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اولاد اپنے بزرگ والدین کی نافرمان ہی نہیں بلکہ ان کو ایذا رسانی میں مبتلا کرتے ہیں بہت سے والدین کو تو گھر سے بھی بے گھر ہونا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی اولاد کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب کے اکثر ممالک اور ہمارے ملک کے کافی شہروں میں تو بیت عجائز کے نام سے ایک محکمہ ہی شروع ہو گیا ہے جس میں اولاد اپنے والدین کو داخل کر کے سکون سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے کہ اگر ہمارا یہی رویہ اپنے بزرگ والدین کے ساتھ رہا تو وہ دن دور نہیں کی ہمارے خلف پر اپنے والدین کی تعظیم سے بالکل ہی غافل رہیں گے اور معاشرہ والدین کی دعاؤں کے بغیر ترقی کی راہ پر بھی گامزن نہیں ہوسکتا۔

اور اگر کوئی کامیابی حاصل ہوتو اسے اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اللہ کا کرم اور والدین کی دعاوں کا اثر تصور کرنا چاہیے، والدین پر اگر کوئی فرض عبادت مثلا نمار اور ماہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوتو انکو ادا کر دینا چاہیے اپنے والدین کو وقت دینا چاہیے انکے پاس بیٹھنا چاہیے اگر وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جو ہمیں پسند نہ آئے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اف تک بھی نہیں کرنا چاہیے۔