ہر مرد و عورت پر اپنے والدین کے حقوق ادا کرنا فرض ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

احادیث میں بھی والدین کے حقوق کا ذکر ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (مفہوم) جو اپنے والدین کی فرمانبرداری کرے انکو خوش کرے انکے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس حالت میں فوت ہو کہ اسکے والدین اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اولاد کا انداز اپنے والدین کے سامنے ایسا ہونا چاہیے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے ہو مگر افسوس آج کل تو معاملہ اسکے برعکس ہی نظر آتا ہے۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی فرمابرداری کی جائے مثلا جو کام شریعت کے مطابق وہ آپ سے کہیں اس کو فورا بجا لائے اور جو کام شریعت کے خلاف وہ کہے تو اس کام میں انکی فرمابرداری نہیں کی جائے گی اور ان کے احسانات کو یاد رکھا جائے کہ ہماری خاطر وہ کتنی قربانیاں دیتے اور اذیتیں برداشت کرتے ہیں اور خود چاہے جس طرح مرضی گزارا کرے مگر ہماری خواہشات کو پورا کرتے ہیں انکی باتوں کو توجہ سے سنا جائے اور جب وہ بات کر رہے ہوں تو انکی بات کو بیچ میں نہ کاٹا جائے کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے اور والدین کے سامنے موبائل استعمال نہ کیا جائے۔

والدین کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کیا جائے، والدین جب تشریف لائیں تو ادبًا انکی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجائے، والدین اگر غریب ہو اور آپ کی خواہشات کو پورا نہ کرسکتے ہو تو ان کو تنگ نہ کیا جائے انکو طعنہ نہ دیا جائے بلکہ جیسے حالات ہو انکے مطابق گزارا کر لیا جائے، والدین اگر مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی تعظیم واجب ہے، انکے دوستوں کی بھی تعظیم کرنی چاہیے، انکو ہمیشہ اپنی دعاوں میں یاد رکھنا چاہیے، انکی طرف پاوں یا پیٹھ کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے، انکی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھتے ہوئے انکے حکم اور مشورے کو قبول کیا جائے، والدین سے دعائیں لیتے رہنا چاہیے۔

اسلام نے سب کچھ ہمارے لیے بیان کر دیا ہے اور والدین کی نافرمانی کے سلسلے میں سزائیں بھی مقرر کر دی ہیں لیکن ان سب کے باوجو د اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو بہت افسوس کے ساتھ یہ نتیجہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اولاد اپنے بزرگ والدین کی نافرمان ہی نہیں بلکہ ان کو ایذا رسانی میں مبتلا کرتے ہیں بہت سے والدین کو تو گھر سے بھی بے گھر ہونا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی اولاد کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب کے اکثر ممالک اور ہمارے ملک کے کافی شہروں میں تو بیت عجائز کے نام سے ایک محکمہ ہی شروع ہو گیا ہے جس میں اولاد اپنے والدین کو داخل کر کے سکون سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے کہ اگر ہمارا یہی رویہ اپنے بزرگ والدین کے ساتھ رہا تو وہ دن دور نہیں کی ہمارے خلف پر اپنے والدین کی تعظیم سے بالکل ہی غافل رہیں گے اور معاشرہ والدین کی دعاؤں کے بغیر ترقی کی راہ پر بھی گامزن نہیں ہوسکتا۔

اور اگر کوئی کامیابی حاصل ہوتو اسے اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اللہ کا کرم اور والدین کی دعاوں کا اثر تصور کرنا چاہیے، والدین پر اگر کوئی فرض عبادت مثلا نمار اور ماہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوتو انکو ادا کر دینا چاہیے اپنے والدین کو وقت دینا چاہیے انکے پاس بیٹھنا چاہیے اگر وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جو ہمیں پسند نہ آئے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اف تک بھی نہیں کرنا چاہیے۔