ابو ثوبان عبدالرحمن عطّاری
(دورۂ حدیث مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے
ہر موڑ پہ ہماری رہنمائی کی ہے، عبادات سے لیکر معاملات تک ایسا کوئی گوشہ نہیں جس
پر اسلام نے روشنی نہ ڈالی ہو،عبادات میں نماز ، روزہ ،زکوٰۃ ،حج وغیرہ شامل ہیں
جبکہ معاملات میں حقوق العباد شامل ہیں انہی حقوق میں
والدین کے حقوق بھی شامل ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
اللہ پاک اور اس کےآخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد خونی اور نسبی رشتوں میں حقوق
الوالدین سب سے مقدم ہیں پھر دیگر ہیں جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک کی سورہ بقرہ کی
آیت نمبر 83 میں ارشاد فرماتا ہے : وَ
اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ترجمہ
کنزالعرفان: اور یاد کروجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیا کہ اللہ کے سوا کسی کی
عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔
آئیے اللہ پاک اور اسکے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا حاصل کرنے اور
علم دین حاصل کرنے کی نیت سے والدین کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں:
اپنے مال کو والدین پر خرچ کرنا: حضرت
عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کیا تھا کہ کیا
خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں ؟تو جواب میں اللہ پاک کا فرمان نازل ہوا یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا
یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ ترجمہ کنزالعرفان: آپ سے
سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں ؟تم فرماؤ: جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو و ہ ماں
باپ ۔
والدین کے ساتھ اچھا سلوک
کرے۔ وَ
وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم نے (ہر) انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی
تاکید کی(پارہ :21،سورہ لقمٰن:15)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ والدین اگر کافر بھی ہوں اور ان کے پاس اپنا ذریعہ رزق
نہ ہو تو مسلمان اولاد پر لازم ہے کہ وہ انہیں خرچہ دیں ،ان کی خدمت کریں،ان کی
زیارت کیا کریں۔(تفسیر روح البیان،ج:6،ص:450)
والدین خلاف شرع کوئی کام کہیں تو ان کا
کہنا نہ مانا جائے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا
ہے کہوَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ
بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ- ترجمہ کنزالعرفان: اور
(اے بندے!) اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ توکسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم
نہیں تو تُو ان کی بات نہ مان۔ (پارہ :21،سورہ لقمٰن:15)
تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اطاعت ِوالدین جائزباتوں میں فرض ہے اگرچہ وہ خود مُرتکِبِ کبیرہ
ہوں ، ان کے کبیرہ کاوبال ان پر ہے مگراس کے سبب یہ اُمورِ جائزہ میں ان کی اطاعت
سے باہرنہیں ہوسکتا، ہاں اگروہ کسی ناجائز بات کاحکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت
جائزنہیں ،
لَاطَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِاللّٰہ تَعَالٰی
( الله تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی شخص کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔(تفسیر صراط
الجنان،ج:7،ص349:)
والدین کے مزید حقوق:
تفسیر صراط الجنان میں سورہ بقرہ کی آیت
نمبر 83 کے تحت مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتھم العالیہ والدین کے حقوق بیان کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ: ایسی
کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اُن کیلئے باعث ِ تکلیف ہو اور اپنے
بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان
سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کیلئے اپنا مال
انہیں خوش دلی سے پیش کرے، اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات
کے بعد ان کیلئے ایصالِ ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے
تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ
گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و
تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے
محمد بلال (درجۂ سادسہ جامعۃ
المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
اللہ تعالی نے
انسان پر بے شمار احسانات کیے ہیں۔ جن
کی وجہ سے وہ اپنی زندگی آسانی سے گزارتا ہے. گویا کہ کوئی بھی شخص اللہ تعالٰی کی
نعمتوں سے مستغنی و بے پروا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان
والدین بھی ہیں انھیں کی بدولت انسان اس دنیا میں آتا ہے اور ضعف سے قوت کی طرف
بڑھتا ہے. اولاد کے سب سے بڑے محسن بھی ان کے والدین ہوتے ہیں . اپنی جوانی، خوشی،
قوت سب اولاد پر فدا کر دیتے ہیں. الغرض اولاد اپنے والدین کے احسانات کا بدلہ نہیں
چکا سکتی ۔
ہمارے پیارے دین
اسلام میں بھی والدین کو بہت بلند مقام اور درجہ حاصل ہے. اللہ تعالٰی نے جو حقوق
بندوں پر لازم کیے ہیں ان میں والدین کے حقوق کو سب سے زیادہ فوقیت دی ہے۔اولاد پر
جو والدین کے حقوق ہیں ان میں سے چند حقوق بمع قرآنی آیات اور احادیث طیبہ مندرجہ
ذیل ہیں۔
(1)صلہ رحمی : قرآن
پاک میں اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ احسان، صلہ رحمی، حسن گفتار کے بارے میں فرمایا :- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا
یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ
لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا ترجمۂ
کنز الایمان:- اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا
دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے
تعظیم کی بات کہنا ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت
نمبر : 23)
ملاحظہ کیجیئے
کتنا شاندار اور احساس کرنے والا دین ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احساس کرنے کا حکم تو دیتا
ہی
ہے ، بلکہ ان کے سامنے اف تک کہنے کی بھی اجازت نہیں، کہ کہیں ان کو برا محسوس نہ
ہو اور ایذا نہ پہنچے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تاکید
کے ساتھ قرآن پاک میں آیا ہے۔
(2)مال خرچ کرنا : اولاد
پر والدین کا حق یہ ہے کہ اپنا مال والدین پر خرچ کرے اور کسی طور پر دریغ نہ کرے
۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ
مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى
وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ ترجمۂ کنز الایمان: تم سے پوچھتے
ہیں کیا خرچ کریں ، تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کروتو وہ ماں باپ اور قریب
کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے (سورۃ البقرہ آیت نمبر 215)
معلوم ہوا جو
مال کسی نیک کام کے لیے خرچ کیا جائے والدین پر سب سے پہلے خرچ کرے ، بعد میں دیگر
مصارف پر خرچ کرے البتہ والدین کو زکوۃ اور صدقات واجبہ نہیں دے سکتے ۔
(3)والدین کی اطاعت و فرماں برداری : والدین
کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اولاد اپنے والدین کے حکم کی اطاعت کرے اور انہیں ایذا نہ
دے
کیوں کہ والدین اپنی اولاد کی اصلاح کے لیے ہمیشہ
سوچتے رہتے ہیں۔ قرآن پاک میں والدین کی اطاعت کے بارے میں آیا ہے: وَ
وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ ترجمہ کنزالایمان:-اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید
فرمائی۔ ( سورة لقمٰن آیت نمبر 14)
(4)دعائے رحمت و مغفرت : والدین
کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اولاد ان کے حق میں دعائے مغفرت و رحمت کرتی رہے۔
کیوں کہ وہ خود تو اپنے ماں باپ کے احسانات نہیں چکا سکتے۔ لہذا خداوند باری تعالٰی
کی بارگاه میں والدین کے لیے رحمت ، مغفرت، احسان کا سوال کرتے رہیں۔ فرمان مصطفی
ہے: (اسْتِغْفَارُ الْوَلَدِ لا بِيْهِ
مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ مِنَ الْبِرِّ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ
بات ہے کہ اولاد ان کے بعد ان کے لئے دعاء مغفرت کرے۔ (
کنز العمال جزء : 16 ، صفحہ : 192 حدیث 45441)
صاحب عقل و ذی
فہم کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جب قرآن پاک میں اور احادیث طیبہ میں تکرار کے ساتھ
والدین کے حقوق کا ذکر آیا ہے تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے حقوق بجا لائے اور اللہ
تعالیٰ کی رضا حاصل کرے. کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں ہی کامیابی
ہے۔ وما توفیقی الا بالله
ابو کثیر ضمیر احمد رضا عطاری (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ
جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
والدین اللہ
تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک ہیں ۔ بالیقیں ان کا کوئی نعم البدل
نہیں ہے ۔ والدین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اولاد کی خواہشات پوری کی جائیں ۔
بلکہ بسا اوقات اپنی ضروریات کو اولاد کی خواہشات پر قربان کر دیتے ہیں ۔ چونکہ
والدین کا رشتہ پیار و محبت ،شفقت و نرمی اور احساس کے حوالے سے سب سے بڑھ کر ہوتا
ہے اس لیے حقوق العباد میں سب سے زیادہ اہمیت ، اولیت اور فوقیت والدین کے حقوق کو
حاصل ہے۔ اسلام نے والدین کے کئی حقوق بیان کیے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔
حسن
سلوک : والدین کے ساتھ حسن سلوک سے
پیش آنا اولاد کی ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ(سورہ بنی اسرائیل آیت۔ 23)ترجمہ کنزالایمان:اور
ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔
خدمت کرنا۔ والدین کی خدمت کرنا اور ان کی ضروریات کو پورا
کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے۔ حتی کہ اسے
جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا چنانچہ : ایک شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر جہاد کی اجازت طلب فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں ؟ عرض
کی: جی ہاں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو تم ان کی خدمت
کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔ (ریاض الصالحین مترجم جلد اول حدیث ۔ 323۔ مطبوعہ شبیر
برادرز)
اطاعت
و فرمانبرداری۔ والدین کی اطاعت و
فرمانبرداری کرنا اور ان کے ہر اس حکم کو جو شریعت کے مخالف نہ ہو بجا لانا لازم
ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ
وسلم نے فرمایا ۔ جو اللہ کے لیے اپنے ماں
باپ کے بارے میں مطیع ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں۔اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک
دروازہ اور جو اپنے والدین کے متعلق اللہ کا نافرمان ہو اس کے لیے آگ کے دو دروازے
کھل جاتے ہیں۔ اگر ایک ہو تو ایک دروازہ ایک شخص نے عرض کیا اگرچہ وہ ظلم کریں
فرمایا اگرچہ اس پر ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں۔ ( مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 ، حدیث نمبر:4723 )
شکر
ادا کرنا۔ بلاشبہ انسان پر والدین کے بے شمار احسانات ہوتے ہیں اس
لیے وقتا فوقتاً ان کا شکر ادا کرتے رہنا بھی اولاد کے لیے ضروری ہے ۔ قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کے ساتھ ہی والدین کا شکر ادا کرنے کا حکم بھی دیا
۔ چنانچہ فرمایا ۔اَنِ
اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(سورہ لقمٰن آیت 14) ترجمہ کنزالایمان: کہ حق مان میرا
اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔
نرمی
سے پیش آنا۔ والدین سے اچھی گفتگو کرنا اور شفقت و نرمی سے پیش آنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے ۔ چنانچہ قرآن
مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔ وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(سورہ بنی اسرائیل آیت 23) ترجمہ کنزالایمان:
اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ
مِنَ الرَّحْمَةِ (سورہ بنی اسرائیل
آیت ۔24) ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے ۔
ان
کے لیے دعا کرنا۔ والدین کی لیے دعا کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا . وَ
قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(سورہ بنی اسرائیل آیت 24)ترجمہ کنزالایمان: اور عرض کر
کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا۔
اس کے علاوہ
بھی والدین کے کئی حقوق ہیں ۔ جیسے ان کو ایذا
رسانی سے بچانا، دل و جان سے ان کی عزت کرنا ، حتی کہ ان کے عزیزوں کو عزیز رکھنا
اور ان کے دنیا سے چل بسنے کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہنا ۔ ضرورت اس امر
کی ہے کہ ہم والدین کا خاص خیال رکھیں ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتیں
اور ہر ممکن کوشش کریں کہ ہماری ذات سے انہیں ایذا نہ پہنچے ۔
والدین کسی بھی
فرد کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں
اور ان کے حقوق کی تعظیم ہر معاشرے کا بنیادی اصول ہے۔ اسلام میں والدین کے
حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے، اور ان کی خدمت اور احترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا
گیا ہے۔ والدین کے حقوق کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ایک مہذب معاشرے کی علامت
ہے۔
والدین
کی خدمت اور احترام* والدین کی
خدمت اور احترام ہمارے معاشرتی اور دینی فرائض میں شامل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ
تعالیٰ نے فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ
اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس
کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو (سورۃ الاسراء: 23)۔
اس آیت سے
ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت اور احترام کو اللہ کی عبادت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
والدین
کے حقوق کی اہمیت: والدین کے حقوق
کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: "جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔" (الترغيب والترهيب لقوام السنة ط
دار الحديث - القاهرة: 1/281 (رقم الحدیث: 448)
یہ حدیث والدین
کی خدمت اور ان کی دعاؤں کے حصول کی ترغیب دیتی ہے۔ والدین کی دعائیں اولاد کے لیے
باعث برکت اور کامیابی ہوتی ہیں۔
والدین
کی خدمت کے مختلف پہلو :ادب اور
احترام: والدین کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا، ان کی باتوں کا ادب کرنا اور ان
کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرنا۔
مالی
معاونت: والدین کی ضروریات کا
خیال رکھنا اور ان کی مالی مدد کرنا۔
صحت کا خیال:
والدین کی صحت کا خیال رکھنا،
انہیں وقت پر دوائیں دینا، اور ان کی دیکھ بھال کرنا۔
دعا: والدین کے لیے دعا کرنا، ان کی مغفرت اور صحت کے
لیے اللہ سے دعا مانگنا۔
والدین
کے حقوق کا معاشرتی پہلو:والدین کے
حقوق کی ادائیگی سے نہ صرف فرد کی زندگی میں برکت آتی ہے بلکہ یہ معاشرتی امن اور
ہم آہنگی کا سبب بھی بنتی ہے۔ ایک معاشرہ جہاں والدین کی عزت کی جاتی ہے، وہاں
اخلاقی اقدار مضبوط ہوتی ہیں اور نئے نسلوں میں بھی ان اقدار کا فروغ ہوتا ہے۔
والدین
کی نافرمانی کے نقصانات:والدین کی
نافرمانی اور ان کے حقوق کی پامالی نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی نقصان کا باعث بھی
بنتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "والدین کی نافرمانی کرنے
والا جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔" (طبرانی صغیر 1/145)۔ والدین کی
نافرمانی سے زندگی میں بے سکونی، مشکلات، اور برکت کی کمی واقع ہوتی ہے۔
والدین
کے حقوق کی ادائیگی کے عملی طریقے:
وقت دینا: والدین کے
ساتھ وقت گزارنا، ان کی باتیں سننا، اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا۔
شکر گزاری: والدین کی قربانیوں کا اعتراف کرنا اور ان کا
شکریہ ادا کرنا۔
تحفے: والدین کو تحفے دینا، چاہے وہ چھوٹے چھوٹے ہی کیوں
نہ ہوں، ان کی محبت اور عزت کی علامت ہے۔
مشورہ: زندگی کے اہم فیصلوں میں والدین سے مشورہ کرنا
اور ان کی رائے کو اہمیت دینا۔
خلاصہ:والدین
کے حقوق کی ادائیگی ہر مسلمان کا فرض ہے اور یہ معاشرتی زندگی میں توازن اور محبت
کا باعث بنتی ہے۔ والدین کی خدمت اور احترام سے نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی
کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے والدین کے حقوق کو پہچانیں، ان کی
خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھیں، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی زندگی کا حصہ
بنائیں۔ اس طرح ہم ایک بہترین اور خوشحال معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر
سکتے ہیں۔
اس حوالے سے
امیر اہل سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا رسالہ سمندری گنبد بہت مفید ہے۔
محمد مجاہد رضا قادری (درجہ رابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم لاہور ، پاکستان)
قراٰنِ کریم کی
تعلیم جہاں اللہ پاک کی عبادت کا حکم دیتی ہے وہیں انسان کو والدین کی اطاعت و
فرماں برداری اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید بھی فرماتی ہے۔
قراٰنِ پاک میں 4سے زائد مقامات پر والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک اور ان کی اطاعت و
فرماں برداری کا مختلف انداز میں بیان ہے، لہٰذا والدین کی اطاعت ضروری ہے اور اس
میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آئیے! والدین
کے حقوق کے متعلق پانچ احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:
(1)والدین
کی خدمت کرنا: ایک شخص نے حضور علیہ
السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو آپ علیہ
السّلام نے فرمایا: تیرے والدین زندہ ہیں؟ عرض کی: جی ہاں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت کر یہی تیرا جہادہے۔ (بخاری،
2/310، حدیث: 3004)
(2)والدین
کو ناراض نہ کرنا: حضرت ابو امامہ
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ دونوں تیری جنّت اور
دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ، 4/186،حدیث:3662) یعنی تیرے ماں باپ تیرے لئے جنّت دوزخ میں
داخلہ کا سبب ہیں کہ انہیں خوش رکھ کر تو جنتی بنے گا انہیں ناراض کرکے دوزخی، یہ
فرمان عالی وعدہ وعید دونوں کا مجموعہ ہے اگرچہ یہاں خطاب بظاہر خاص ہے مگر حکمِ
تا قیامت عام ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/540)
(3)ماں
باپ کو گالی نہ دینا: رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی
اپنے ماں باپ کو گالی دے۔ عرض کیا گیا: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم! کوئی اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ فرمایا: اس کی صورت یہ ہے کہ
یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اِس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔(بخاری،
4/94، حديث: 5973)
(4)والدین
کی قبر پر جانا: والدین کی وفات کے
بعد بھی اولاد پر والدین کا حق لازم ہے وہ یہ کہ ان کی قبر پر جائے ایصالِ ثواب
کرے تو یہ اس شخص کیلئے بھی باعثِ ثواب ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: نبیِّ پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک
کی قبر پر ہر جمعہ کو زیارت کے لئے حاضر ہو تو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا اور
وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا لکھا جائے گا۔ (معجم اوسط للطبرانی،4/321،حديث:
6114)
(5)بڑھاپے میں
والدین کی خدمت کرنا: اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اُس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی
ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو) کسی نے عرض کیا: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ کون ہے؟ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں
یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا۔
(مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)
اللہ ربُّ
العزّت ہمیں اچھےطریقے سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی
ناراضی سے محفوظ فرمائے اور جنت کا حقدار بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حقوق العباد کو پورا کرنا ہر مردو عورت پر لازم ہے
اور حقوق العباد میں ایک حق حقِ والدین بھی ہے ہر مرد و عورت پر والدین کے حقوق کو
بھی ادا کرنا فرض ہے۔ خاص کر کچھ ایسے حقوق ہیں جنکا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ آئیے
کچھ والدین کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں کہ آخر والدین کے کیا کیا حقوق ہیں۔
1۔ خود کو اور مال کو والدین کا سمجھے ہمارے آخری
نبی محمد عربی ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے ۔ (ابن
ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)اگر والدین اپنی ضرورت سے اولاد کے مال و سامان میں سے
کوئی چیز لے لیں تو ہرگز برا نہ مانیں اور نہ ہی اظہار ناراضگی کریں بلکہ یہ
سمجھیں کہ میں اور میرا مال سب میرے والدین کا ہی ہے۔
2۔ والدین کو ایصال ثواب کرنا والدین کا یا ان میں
سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو اولاد پر والدین کا یہ حق ہے کہ ان کے لیے دعائے
مغفرت کی دعا کرتے رہیں اور اپنی نفلی عبادتوں، خیر و خیرات کا ثواب انکی روحوں کو
پہنچاتے رہیں کھانوں اور شیرینی وغیرہ پر فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب
کرتے رہیں۔ (جنتی زیور، ص 93)
3۔ دل نہ دکھائیں والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ
ہرگز ہرگز اپنے فعل یا قول سے والدین کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں اگرچہ
والدین اولاد پر زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی
اور کسی حال میں بھی والدین کا دل نہ دکھائیں اور جن کاموں سے زندگی میں والدین کو
تکلیف ہوا کرتی ہے ان کی وفات کے بعد بھی ان کاموں کو نہ کریں کہ اس سے انکی روحوں
کو تکلیف پہنچے گی۔ (جنتی زیور، ص 94)
4۔ حکم کی فرمانبرداری والدین کا حق ہے کہ اولاد اپنے
والدین کے حکموں کی فرمانبرداری کرے اور اگر وہ شریعت کی خلاف ورزی کریں تو انہیں
احسن انداز میں سمجھایا جائے۔ (جنتی زیور، ص 93 )
5۔ قبروں کی زیارت والدین کے حقوق میں ایک حق یہ
بھی ہے کہ کبھی کبھی والدین کی قبروں کی زیارت کے لئے جایا کریں انکی قبروں پر
فاتحہ پڑھیں، سلام کریں اور انکے لیے دعائے مغفرت کریں اس سے والدین کی ارواح کو
خوشی ہوگی، اور فاتحہ کا ثواب تو فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر انکے سامنے پیش
کریں گے اور والدین خوش ہو کر اپنی اولاد کو دعائیں دیں گے۔ (جنتی زیور، ص 94)
ہم نے چند والدین کے حقوق سننے کی سعادت حاصل کی ہے
والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں جن کو ادا کرنا اولاد پر فرض ہوتا ہے مگر افسوس ! کہ
اس زمانے میں لڑکے اور لڑکیاں والدین کے حقوق سے بالکل غافل اور جاہل ہیں انکی
تعظیم اور تکریم، اور فرمانبرداری اور خدمت گزاری سے منہ موڑ ے ہوئے ہیں بلکہ کچھ
تو اتنے بد بخت اور نالائق ہیں کہ اپنے قول اور فعل سے والدین کو اذیت دیتے
ہیں۔اور اسی طرح گناہ کبیرہ میں مبتلا ہو کر قہر قہار اور غضب جبار میں گرفتار اور
عذاب جہنم کا حقدار بن رہے ہیں۔
بس یہ یاد رکھو! کہ تم اپنے والدین کے ساتھ اچھا یا
برا جو سلوک بھی کرو گے ویسا ہی سلوک تمہاری اولاد تمہارے ساتھ کرے گی اور یہ بھی
جان لو ! کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک ﷺ کرنے سے رزق اور عمر میں خیر و برکت نصیب
ہوتی ہے۔ تو اے کاش کہ ہم بھی اپنے والدین کی قدر کریں اور ان کے حقوق کو ادا کرنے
میں کامیاب ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق العباد کو ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین
حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے،
اور یہ اتنا مقدم حق ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق عبادت کے بعد جس حق کا ذکر کیا
ہے وہ والدین کا حق ہے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے
والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں
برداشت کی ہیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
1: والدین سے سے حسن سلوک:
اللہ تعالیٰ نے والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًاؕ- (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے
ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے کہ تم اپنے والدین کے ساتھ
انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم
ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔
2: والدین کا ادب: (
بیٹے کو چاہیے کہ) والدین کی بات توجہ سے سنے، ماں باپ جب کھڑے ہوں تو تعظیماً ان
کیلئے کھڑا ہو جائے جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فورا بجا لائے۔ ان دونوں کے کھانے
پینے کا انتظام و التزام کرے اور نرم دلی سے ان کیلئے عاجزی کا بازو بچھائے وہ اگر
کوئی بات بار بار کہیں تو ان سے اکتا نہ جائے ان کے ساتھ بھلائی کرے تو ان پر
احسان نہ جتلائے وہ کوئی کام کہے تو اسے پورا کرنے میں کسی قسم کی شرط نہ لگائے ان
کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور نہ ہی کسی معاملے میں ان کی نافرمانی کرے۔ (آداب
دین، ص 52)
3: والدین کی اطاعت: والدین
کی نارا ضگی اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور
فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے حدیث مبارکہ میں بھی والدین کی اطاعت
کا حکم دیا گیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے ماں باپ کا حکم مانو، اگرچہ وہ
تمہیں گھر سے نکل جانے کا حکم دیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد کو ہر صورت ماں باپ
کی اطاعت و فرمان برداری کرنی اور یہاں تک نوبت نہیں آنے دینا چاہیے کہ وہ کہیں
گھر سے نکل جاؤ۔ (حقوق والدین، ص140)
4: فوت شدہ والدین کے حقوق: سیدی اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ والدین کے
انتقال کے بعد اولاد پر کن کن حقوق کی ادائیگی لازم ہے تو آپ نے حقوق بیان فرمائے
ان کی موت کے بعد غسل کفن، دفن اور نماز کے معاملات میں، سنتوں اور مستحبات کا
خیال رکھے۔ ان کیلئے دعاو استغفار کرتا رہے صدقہ خیرات اور نیکیاں کر کےان کا ثواب
والدین کو پہنچائے ان پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرے ان پر کوئی فرض
عبادت رہ گئی ہو تو کوشش کر کے اس کی ادائیگی کرے مثلاً نماز و روزہ ان کے ذمہ
باقی ہو تو اس کا کفارہ دے۔ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرے ان کے
دوستوں کا ہمیشہ ادب و احترام کرے اور سب سے بڑا حق یہ ہے گناہ کر کے قبر میں ان
کو تکلیف نہ پہنچائے والدین کے انتقال کے بعد والدین کے حقوق سے پتا چلتا ہے کہ
دین اسلام میں والدین کی وفات کے بعد بھی ان کی قدر و منزلت اور مقام بہت بلند
وبالا ہے۔ (والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق، ص 202)
5: والدین کی قبروں کی زیارت: (والدین
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یسین
شریف پڑھنا ایسی یعنی اتنی آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہچانا
راہ میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کیے بغیر)
نہ گزرنا۔ (فتاوی رضویہ، 24/392)
والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں۔ بچپن میں
والدین ہی اپنے بچے کی دیکھ بال اور پرورش کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے والدین کے ساتھ
حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے۔ کیونکہ بچے
کی پیدائش میں ماں زیادہ تکالیف برداشت کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ
وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ
لِوَالِدَیْكَؕ- (پ 21، لقمٰن: 14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے
آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا
کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان
میرا اور اپنے ماں باپ کا۔
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہﷺ سب سے زیادہ
احسان کا مستحق کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا: پھر
کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمارا باپ۔
(بخاری، 4/، 93، حدیث:
5971)
اور ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے
زیادہ ماں ہے، پھر ماں، پھرماں، پھر باپ، پھر وہ جو زیادہ قریب، پھر وہ جو زیادہ
قریب۔ (مسلم، ص 1378، حدیث:2548)
والدین کے چند حقوق درج ذیل ہیں:
والدین کے
ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیے۔
اپنی طاقت بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اور بھلائی
کیجیے۔
انکی ہر وہ بات فوراً سنیے جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔
لوگوں سے انکے کیے ہوئے
وعدے انکی وفات کے بعد بھی پورے کیجیے۔
انکے ساتھ ہمیشہ نرمی والا رویہ اختیار کیجیے۔ جب
ان کے ساتھ بات کریں۔تو نرم لہجے میں اور نظریں جھکا کر بات کیجیے۔ اور بات کرتے
ہوئے ہمیشہ
پست آواز رکھیے۔
اللہ پاک بطفیل مصطفیﷺ ہمیں ہمارے والدین کا
فرمانبردار بنائے
اور ہمیں ہمارے والدین کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اور
یہ اتنا اہم حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق عبادت کے بعد جس حق کا ذکر کیا ہے وہ
والدین کا حق ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے
کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا
قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں
نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
یوں تو والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں کہ اولاد ان
کا کوئی حق بھی ادا نہیں کرسکتی ہے ان میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں:
1:والدین کی قبر پر حاضری والدین
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ
شریف پڑھنا ایسی (یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح
کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی
سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)
2:زیادہ حسن سلوک کا حقدار ایک
صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میں کس سے نیکی کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی
ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھراپنے باپ سے۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)
3:والدین کی رضامندی نبی
کریم ﷺ نے فرمایا رب کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی
ناراضگی میں ہے ۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)
4:والدین کے حقوق کی ادائیگی انسان
ساری عمر والدین کی خدمت کرتا رہے ان کی اطاعت کرتا رہے ان کے آگے اف تک نہ کہے
اپنی کمر پر اٹھا کر والدین کو حج کروائے پھر بھی والدین کا پورا حق ادا نہیں کر
سکتا ہاں والدین کے حق ادا کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ ہے کہ والدین کو غلام
لونڈی کی صورت میں پائے اور ان کو خرید کر آزاد کردے۔(مسلم، ص 624، حدیث:3799)
5:والدین کے لیے ایصال ثواب اگر
ماں باپ یا ان میں سے کوئی بھی اگر دنیا سے رخصت ہوجائے تو اولاد کو چاہیئے کہ ان
کے لیے خوب خوب ایصال ثواب کرے یہ والدین کے لیے اپنی اولاد کی طرف سے ایک بہترین
تحفہ ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کا ادب واحترام کرنے،ان
کی خوب خوب خدمت کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بجاہ النبی الامین ﷺ
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے ہماری
زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فرمائی ہے عبادات سے لے کر معاملات تک کوئی ایسا گوشہ
نہیں جس پر دین اسلام نے روشنی نہ ڈالی ہو دین اسلام کے ماننے والے کسی دوسرے مذہب
کے محتاج نہیں ہیں پھر اگر غور سے دیکھا جائے تو پورے کا پورا اسلام ہمیں حقوق و
فرائض کا مجموعہ نظر آتا ہے جس کی بنیاد تین اقسام پر ہے: حقوق اللہ، حقوق النفس
اور حقوق العباد۔
حقوق العباد میں سب سے پہلا حق نبی اکرمﷺ کا ہے جو
کہ سب سے اعلی و مقدم ہے نبی مکرمﷺ کے بعد خونی اور نسبی رشتوں میں سب سے مقدم
حقوق والدین کے ہیں خاندانی زندگی میں والدین کا مقام بہت بلند ہے انکے بغیر
خاندانی زندگی ناممکن ہے والدین اولاد کے لئے انمول نعمت ہیں اولاد کو جو محبت
الفت اخلاص والدین سے میسر آتا ہے کسی اور سے نہیں آسکتا کیونکہ انکی شفقت و محبت
بے لوث ہوتی ہے والدین کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ انکی اولاد دنیاوی زندگی میں بلند
ترین مقام حاصل کرے اولاد کے سکھ کے لئے انہیں بذات خود بیشمار دکھ بھی برداشت
کرنے پڑتے ہیں اس لحاظ سے والدین کا درجہ بہت ہی بلند و بالا ہے اور بےحد قابل
احترام ہے اسی لئے اللہ تعالی نے والدین کی اطاعت و خدمت کو لازمی قرار دیا اللہ پاک
نے قرآن مجید فرقان حمید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت ہی تاکید فرمائی ہے، ارشاد
باری تعالیٰ ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ
5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ
اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔
والدین کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ اطاعت کرنا: ہر
جائز بات میں جس کا والدین حکم کریں اور وہ خلاف شرع نہ ہو تو فورا اس حکم کی
تکمیل کرے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اکثر علماء کا فرمان
ہے کہ اگر کسی کو ماں باپ نے کسی ایسے کام کا حکم دیا جس کا شریعت میں حرام و
ناجائز ہونا واضح نہیں بلکہ شبہ ہے کہ جائز ہے اور یہ بھی شبہ ہے کہ ناجائز ہے
ایسی صورت میں والدین کی اطاعت کرنا اور وہ کام کر ڈالنا واجب ہوگا البتہ جس کا
ناجائز ہونا شریعت میں واضح ہے انکے کہنے پر وہ کام نہ کرے کیونکہ اللہ و رسول پاک
ﷺ کی اطاعت والدین کی اطاعت سے مقدم ہے۔ (روح البیان 5/149)
2۔ عزت و احترام کرنا: اپنی
ہر بات اور ہر عمل سے والدین کی تعظیم و تکریم کرے اور ہمیشہ انکی عزت و حرمت کا
خیال رکھے، مثلا 1۔اولاد اپنے والدین کے آگے نہ چلے۔ 2۔ والدین آئیں تو احتراما
کھڑے ہو جائے۔ 3۔ والدین کے بیٹھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔ 4۔ کھانے پینے میں بھی
والدین سے سبقت نہ کرے۔ (روح البیان، 5/ 148)
3۔ خدمت کرنا: والدین کی
خدمت کرنا اور بالخصوص جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائے تو اولاد انکی زیادہ سے زیادہ
خدمت کرے کیونکہ بڑھاپا عمر کا ایک حصہ ہے جس وقت جسمانی طاقت جواب دے دیتی ہے اور
اولاد کے سہارے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ بڑھاپے کے دن آسانی سے گزر جائیں
بوڑھے والدین کی خدمت پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ڈھیر سارا اجر رکھا ہے، چنانچہ
حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ والدین سے حسن سلوک کرنا نماز اور روزے سے بہتر ہے۔ (اتحاف
السادۃ المتقین، 6/314)
نوٹ: یہاں نماز
روزے سے مراد نفلی نماز و روزہ ہے۔
4۔اف تک نہ کرنا: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا
قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں
نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
والدین کی تعظیم و تکریم اور فرمانبرداری ہمیشہ
واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے فرمایا کہ اس
عمر میں جاکر والدین بعض اوقات چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور انکو بیماریاں لاحق ہوجاتی
ہیں زبان سے الٹے سیدھے الفاظ نکلنے لگتے ہیں اس موقع پر اولاد کو صبر اور برداشت
سے کام لینا چاہئے اور انکا دل خوش کرنا چاہیے اور رنج دینے والے ذرا سے بھی لفظ
سے بھی پرہیز کرنا بہت بڑی سعادت اور دونوں جہاں میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
5۔ دعا کرنا: اولاد کو
چاہیے کہ والدین حیات ہوں یا وفات پاگئے ہوں ان کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھے
کہ اس کا حکم رب پاک نے قرآن پاک میں بھی دیا ہے، وَ اخْفِضْ لَهُمَا
جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ
صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ
15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی
سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے
چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔
والدین کے لئے دعا کو اپنے روز و شب کے معلومات میں
داخل کر لینا چاہیے انکی صحت و تندرستی، ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرنی
چاہئے اگر فوت ہوگئے ہوں تو ان کیلئے قبر میں راحت، قیامت کی پریشانیوں سے نجات، بے
حساب بخشش اور جنت میں داخلے کی دعا کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ اگر والدین کافر ہوں تو
ان کے لئے ہدایت و ایمان کی دعا کرنی چاہیے کہ یہی ان کے حق میں رحمت ہے۔
دونوں جہاں میں گر تجھے کامرانی چاہیے ماں باپ سے مخلصانہ
تعلق نباہیے
اللہ پاک ہمیں والدین کا اطاعت گزار و فرمانبردار
بنائیں۔ آمین
سب سے پہلے میں آپ کو مثال دوں والدین کی محبت کا
اس طرح کے والدین اپنی اولاد کو ہر دکھ اور پریشانی سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ
میری کسی اولاد کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اولاد کو زندگی میں ہر آسائش دینے کی
بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اگر کبھی اولاد پر کوئی جانی یا مالی پریشانی آ بھی جائے
تو وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کے لیے اچھے مستقبل کی دعا کرتے ہیں، اللہ
تعالی کے بعد انسان کے سب سے بڑے محسن والدین ہیں جن سے انسان کو سب سے زیادہ مدد
ملتی ہے دنیا میں صرف والدین ہی وہ ہستیاں ہیں جو اپنی راحت اولاد کی راحت پر
قربان کر دیتی ہیں اس لیے اسلام نے حقوق العباد میں سب سے پہلے والدین کے حقوق کا
ذکر خیر کیا ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا :
اولاد پر والدین کا پہلا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے نرمی سے
بات چیت کی جائے انہیں اف تک نہ کہا جائے ان کو خوش کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے
والدین کے ساتھ حسن سلوک ان عظیم کاموں میں سے ہے جن پر اسلام نے سب سے زیادہ زور
دیا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور
ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
مذکورہ آیت
قرانی کی رو سے والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ عبادت خداوندی کے بعد والدین کے ساتھ
حسن سلوک کا ذکر کیا گیا ہے اسی طرح حدیث پاک میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک پر
بہت زور دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
خدا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟فرمایا وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا
پھر کون سا ہے ؟ فرمایا والدین سے حسن سلوک۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)
ایک صحابی نے پوچھا: اللہ تعالی کے رسول! میرے حسن
سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ آپ نے تین دفعہ فرمایا کہ تیری ماں اور چوتھی
دفعہ باپ کا تذکرہ کیا۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)
والدین کی اطاعت کرنا : والدین
کی ان تمام باتوں کو ماننا ضروری ہے جو شریعت کے مخالف نہ ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ
ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ
15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی
سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے
چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔
متعدد احادیث میں اولاد کو والدین کی اطاعت کی
تلقین کی گئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے خدا نے ماں کی نافرمانی تم پر حرام کر دی۔
پھر فرمایا: والدین کی رضامندی اور ناخوشی میں اللہ تعالی کی رضامندی اور ناخوشی
ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)
والدین کی خدمت کرنا: اولاد
کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے کیونکہ اسلام نے والدین کی خدمت میں بڑا
اجر و ثواب رکھا ہے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے منبر پر چڑھتے ہوئے فرمایا: وہ شخص خوار ہوا
وہ شخص خوار ہوا وہ شخص خوار ہوا تو صحابہ کرام علیہم رضوان نے پوچھا یا رسول اللہ
کون ؟ آپ نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک وہ شخص جس نے ماں باپ کو
یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا۔(مسلم، ص
1060، حدیث: 6510)
والدین کی خدمت عبادات سے بہت افضل ہے چنانچہ واقعہ
ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے جہاد میں
جانے کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے پوچھا
تمہاری والدہ موجود ہے؟ جواب دیا: ہاں۔ فرمایا: بس !اس کی خدمت کرو اس کے پاؤں کے
نیچے جنت ہے۔ (نسائی، ص 504، حدیث: 3101) آپ ﷺ نے فرمایا والد جنت کا بہترین دروازہ ہے چاہو تو
اس کی حفاظت کرو چاہو تو اسےضائع کر دو۔
والدین کو مال دینا: والدین
جب بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انکی جسمانی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کی مالی امداد کرنا
بھی ان کا حق ہے جیسا کہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ
مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ(پ
2، البقرۃ: 215 )ترجمہ: آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے کیا خرچ کیا کہہ دیجیے کہ جو
مال بھی خرچ کرو اس کے اولین حقدار والدین ہیں۔
آپ ﷺ نے
بھی والدین کی مالی اعانت پر زور دیا ہے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری اولاد
تمہاری پاک اور حلال کمائی ہے۔ تم اپنی اولاد کی کمائی سے بلا جھجک کھاؤ پیو۔ ایک
شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں صاحب اولاد ہوں میرے پاس کچھ مال ہے میرے
والد اسے ہلاک کرنا چاہتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: تم بھی اپنے باپ کے ہو اور تمہارا
مال بھی۔ تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اور اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔
شکر گزاری کرنا: اللہ
تعالی کے بعد انسان پر والدین کی سب سے زیادہ احسانات ہیں اس لیے بچوں کو اپنے والدین
کا مشکور ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ لقمان آیت 14 میں ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-ترجمہ: میرا
شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا۔اس لیے محسن انسانیت ﷺ نے تاکید فرمائی ہے جو شخص اپنے والدین سے بے
رخی کرتا ہے وہ ناشکرا ہے۔
اللہ
پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اور انسانوں کو اپنی بہت سی نعمتوں سے
نوازا ہے۔ دنیا میں آکر ہمارے دوسرے لوگوں سے تعلقات استوار ہوتے ہیں تو اس لیے
ضروری ہے کہ ہم ان حقوق کو بھی جانیں جن کا ادا کرنا ہم پر ضروری ہے۔ حقوق دو طرح کے ہیں: 1۔حقوق اللہ 2۔حقوق العباد
حقوق العباد میں سب سے پہلے اپنے ماں باپ کے ساتھ
بھلائی اور حسن اخلاق سے پیش آنا ضروری ہے یہاں ماں باپ کے چند حقوق بیان کیے جاتے
ہیں:
حق نمبر 1:
ہمیں اپنے کسی قول و فعل سے ہرگز ہرگز اپنے ماں باپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں
دینی چاہیے اگرچہ ماں باپ اولاد پر کچھ زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض
ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی اور کسی بھی حال میں ماں باپ کا دل نہ دکھاے کیونکہ بچپن
میں انہوں نے ہی تمہاری پرورش کی ہے اور تمہارے ساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کیا
ہے تو ہمیں بھی ان کے حقوق ادا کرنے ضروری ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسن محبت( یعنی احسان)
کا مستحق کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے)
انہوں نے پوچھا پھر کون؟ تو فرمایا: تمہاری ماں انہوں نے پوچھا پھر کون؟ حضور اقدس
ﷺ نے پھر ماں کو بتایا انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون ارشاد فرمایا تمہارا والد۔(1)
حق نمبر 2: اپنی ہر بات اور ہر عمل سے ماں باپ کی
تعظیم و توقیر کرے اور ہمیشہ ان کی عزت و احترام کا خیال رکھے ہر جائز کاموں میں
ماں باپ کے حکموں کی فرمانبرداری کرے اور اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان
و مال سے ان کی خدمت کرے۔ اپنے مال کے ذریعے ان کی ضروریات پوری کرے۔ حدیث شریف
میں ہے کہ: حضور اقدس ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا
ہے۔ (2)
حق نمبر 3: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے
اور اگر وہ دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ان کو
اف تک نہ کہو کہ بچپن میں انہوں نے ہماری پرورش کی اور ہمارا خیال رکھا ان کے
بڑھاپے میں ہمیں بھی ان کا سہارا بننا چاہیے اور اگر کبھی یہ ہمیں ڈانٹ بھی دیں تب
بھی ہمیں صبر کر کے ثواب حاصل کرنا چاہیے اور ان سے ناراضگی کا اظہار نہیں کرنا
چاہیے۔ ان کا کہا ہوا ہر وہ کام جو خلاف شرع نہ ہو تو اسے فورا بجا لانا چاہیے اور
ان کی خدمت کر کے جنت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ پاک نے فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- ترجمہ کنز
الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے
ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (3)
حق نمبر 4: ماں باپ کا انتقال ہو جائے تو اولاد پر
ماں باپ کا یہ حق ہے کہ ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور اپنی نفلی
عبادتوں اور خیر و خیرات کا ثواب ان کی روحوں کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔ اعلی حضرت
فرماتے ہیں: (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ )ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت ﷺ میں
حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی میں نیک سلوک
کرتا تھا اور وہ انتقال کر گئے ہیں تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے؟
ارشاد فرمایا :انتقال کے بعد نیک سلوک یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے
بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لیے روزے رکھے یعنی جب اپنے ثواب ملنے
کے لیے کچھ نفلی نماز پڑھے یا روزے رکھے تو کچھ نفل نماز ان کی طرف سے بھی پڑھ لے
کے انہیں ثواب پہنچے یا نماز روزہ جو نیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں ثواب پہنچنے کی
بھی نیت کرے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ ہوگا۔ (4)
حق نمبر 5: ماں باپ کی وفات کے بعد ان کے لیے دعائے
مغفرت کرے ماں باپ کے ذمے جو قرض ہو اس کو ادا کرے اور ان کی وصیت پر عمل کرے اور
برے کام کر کے ان کی روحوں کو تکلیف نہ دے اور ان کی قبر کی زیارت کے لیے بھی جائے
ان کے انتقال کے بعد ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ جیسے
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے انتقال
کر جانے یا کہیں چلے جانے کی صورت میں احسان کرے۔ (5)
اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے اور ان کی
فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حوالہ جات:
1۔ (بخاری، 4/93، حدیث: 5971)
2۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)
3۔ (پارہ 15، بنی اسرائیل: 23)
4۔ (فتاوی رضویہ، 24/395 ملخصا )
5۔ (مسلم، ص 1382، حدیث:2552)