اسلام کی تعلیمات کو جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے حقوق کا پتہ ملتا ہے، ایک تو حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد،خدا کو ایک ماننا تنہا اس کی عبادت کرنا، نماز پڑھنا۔روزہ رکھنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں،والدین کے ساتھ حسن وسلوکااولاد کے ساتھ رحم وکرم،یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العبادہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حقوق اللہ میں سب سے بڑا حق توحید و خداپرستی ہےکہ ایک خدائے پاک کی عبادت کریں اس کی ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور حقوق العباد میں سب سی بڑاحق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں،اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں،یہی وجہ ہے کہ پروردگارعالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب والدین کو اف تک کہنے سے منع فرمادیا۔

والدین کے ساتھ حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار آیات کریمہ ہیں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے، خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:

(1) وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

(3) اور دوسری جگہ ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

والدین کے حقوق اور حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار احادیث کریمہ ہیں جن میں حضور ﷺ نے بہت تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ اچھا سلوک کریں اور انہیں تکلیف نہ دیں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے۔

(1)مشہور صحابئ رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے سرکار علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

(2)اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ !اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

(3)حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا کیامیں تمہیں تین بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورسرکار علیہ السلام نے فرمایا: تین لوگوں کی دعا قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا،مسافر کی دعا،اور اولاد کے خلاف والدین کی دعا۔ لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ہمیشہ ایسی حرکت سے پرہیز کرے، جس کے سبب والدین کو اس کی خلاف بد دعا کرنی پڑے، اور والدین کوبھی چاہیے کہ حتیٰ المقدور ان پر بد دعا کرنے سے بچے۔ ورنہ مقبول ہونے پر خود ہی پچھتانا پڑیگا، جیساکہ آج دنیا میں اس کا مشاہدہ کیا جاتاہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ والدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ کعبہ کی طرف دیکھناعبادت ہے۔ قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ جس بھائی کے لیے اللہ کے لیے محبت ہو اس پر نظر ڈالنا عبادت ہے۔

اور جو والدین کو ناراض کرے ان کے حقوق کوادانہ کرے۔ ان کے بارے میں سرکار دوعالم فرماتے ہیں تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے فر ض کو، اور نہ نفلوں کو قبول کرتاہے: ماں باپ کو ایذادینے والا اور صدقہ دے کر احسان جتلانے والا اور تقدیر کا جھٹلانے والا۔

ماں کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا،پوچھنے لگا !اے اللہ کے رسول سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟کہ اس کے سا تھ حسن و سلوک کرو ں۔ آپ نے فرما یا: تیری ماں کا، پوچھا، پھر کس کا، آپ نے فرما یا تیری ما ں، پوچھا، پھر کس کا ؟آپ نے فرمایا تیری ما ں کا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

کیوں کہ حمل وضع حمل، اور دودھ پلانے کی شفقت اور صعوبت صرف ما ں اٹھاتی ہے باپ نہیں اٹھاتا، اس وجہ سے ما ں کا حق زیادہ ہے۔

اولاد پر والدین کے حقوق بعد وفات: اسلام کی تعلیمات میں جہا ں بار بار تاکید سنایا گیا کہ دنیا وی زندگی میں والدین کے ساتھ حسن و سلوک کریں اور دوسری طرف یہ درس بھی دیا کہ وہ دنیا سے چلے جائیں تو ان کے ساتھ حسن و سلوک کرو۔ان کے کی لئے ہمیشہ دعاء و استغفار کرو،صدقہ و خیرات واعمال صالحہ کا ثواب انہیں پہنچاتے رہو۔

ہا ئے افسوس !آج معاشرے میں بہت ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے اخلاقی زندگی کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہیں مخلوط خاندانوں میں رشتوں کا تقدس بری طرح پا مال ہو رہا ہے باپ جب تک کماتا ہے، اولاد والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہے مگر جیسے ہی ملازمت سے فراغت کے بعد گھر آتا ہے، تو اسے بیکار اور فالتو تصور کیا جانے لگتا ہے، ما ں باپ کا وجود کتنی بڑی نعمت ہے اس کی قدر وہیں جانتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔ پیاری اسلامی بہنو! ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اور پرورش وغیرہ پر جو بے انتہاء تکالیف برداشت کرتے ہیں، اس میں ان کے پیش نظر ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑھاپے کے ایام میں اولاد ان کا سہارا بنے اور محتاجی وبے بسی کے ان دنوں میں ہر طرح سے ان کا خیال رکھے۔

ماں باپ کا حق ماننے کی تاکید: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ- (پ 21، لقمٰن: 14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدرو اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں، اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)حدیث مبارکہ میں تو والدین کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بے رخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

والدین کا اولاد پر یہ بھی حق ہے کہ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرے۔

قرآن مجید میں والدین کے حق میں یہ دعا سکھائی گئی: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ!کیا والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!ان کی نماز جنازہ پڑھو، ان کی بخشش کی دعا مانگو،ان کے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، ان کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرو اور ان کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی، ان کی فرمانبرداری کی، اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے:  وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے اپنے حق کے فورا بعد حق والدین کو بیان فرمایا۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح سب کا معبود حقیقی ایک ہی ہے اسی طرح ہر شخص کا باپ اور ماں بھی ایک ہی ہے،یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالق حقیقی کیساتھ، اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے پانچ باتوں کو لازم قرار دیا ہے احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے: چنانچہ حضوراکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں، اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو والدین کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یارسول اللہ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بے رخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

والدین کا اولاد پر یہ بھی حق ہے کہ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرے۔

قرآن مجید میں والدین کے حق میں یہ دعا سکھائی گئی: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!ان کی نماز جنازہ پڑھو، ان کی بخشش کی دعا مانگو، ان کے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، ان کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرو اور ان کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی، ان کی فرمانبرداری کی اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اپنے والدین کا احترام دنیاوآخرت میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں۔

والدین کے پانچ حقوق:

( 1)اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان و مال سے انکی اس حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔

(2)ماں باپ کا انتقال ہوجائے تو ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔

(3) باپ کی نافرمانی اللہ جبّار و قہّار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضی اللہ جبّار و قہّار کی ناراضی ہے، آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/384)

(4) والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ شریف پڑھنا ایسی (یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)

(5) اپنی طاقت بھر ان کےساتھ ہر نیکی اور بھلائی کریں۔


اسلام نے والدین کی خدمت و اطاعت اور ان سے حسن سلوک کو بہت اہمیت دی ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جابجا اپنی عبادت کے فورا بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ پیدائش سے موت تک انسان اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے، جب انسان پیدا ہوتا ہے تو والدین ہی اس دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا سارا انتظام کرتے ہیں۔ ہر انسان پر والدین کے اتنے احسانات ہوتے ہیں کہ اگر وہ ساری زندگی بھی ان کی خدمت کرتا رہے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا لیکن وہ ان کے احسانات کے جواب میں ان کی خدمت کر سکتا ہے، ان کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کر سکتا ہے۔ یوں وہ کسی قدر والدین کے احسانات کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اولاد پر والدین کے جو حقوق بیان کئے گئے ان میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ ارشاد باری ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

حقوق والدین احادیث کی روشنی میں:

(1) پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

(2) سب سے افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا، اور والدین سے حسن سلوک کرنا ہے۔

(3) حضورﷺ نے فرمایا کہ جبریل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا: آمین۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(4) ایک شخص حضور ﷺ کے پاس جہاد کی اجازت لینے آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں ہی جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

حقوق والدین: انسان پر اپنے والدین کے بے پناہ حقوق اور احسانات ہوتے ہیں جن کا احاطہ کرنا یہاں محال ہے۔ ان میں سے چیدہ چیدہ کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

(1) والدین کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ والدین کا ادب و احترام کیا جائے، ان سے ہر قسم کی گستاخی سے بچا جائے۔ گفتگو اور بات چیت کے دوران عزت و تکریم کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ان کو جھڑکنا یا اونچی آواز میں بات کرنا بلکہ اف تک کہنے سے گریز کیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

( 2) والدین سے حسن سلوک کا مطلب یہ ہے کہ جیسے بھی ہو سکے ان سے اچھا برتاؤ کرے۔ ان کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ ان کے حکم نورا بجالائے۔ ان کی تمام تکالیف دور کرے۔ دنیا کے جھمیلوں میں لگ کر ان سے بے رخی نہ برتے بلکہ اپنے اوقات میں سے ان کے لئے وقت نکالے اور خوش دلی سے ان کے کام بجالائے۔ والدین کی خدمت واطاعت میں اللہ کی رضا ہے۔ والدین کی خدمت کی اتنی اہمیت ہے کہ اس عمل کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے:

(3) ایک شخص حضور ﷺ کے پاس جہاد کی اجازت لینے آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟، اس نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں ہی جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

(4) والدین کی زندگی میں ان کی لمبی زندگی کیلئے اور ان کی وفات کے بعد ان کی مغفرت کیلئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ پاک نے انسان کو اپنے والدین کے لیے دعا کرنے کا صرف حکم نہیں دیا، بلکہ خود اسے وہ الفاظ سکھائے جن کے ذریعے والدین کیلئے دعا کی جائے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

(5) والدین کی نافرمانی کو سخت ناگوار گردانا گیا ہے۔ اور ان سے ہر طرح کی بدسلوکی سے منع کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے: بڑے گناہ یہ ہیں: (1) خدا کا شریک بنانا (3) والدین کی نافرمانی کرنا (3) ناحق قتل کرنا (4) جھوٹی قسم کھانا۔

(6) مسلمان تو مسلمان، والدین اگر کافر بھی ہوں تب بھی دنیاوی معاملات میں ان کی اطاعت ضروری ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے خلاف بات کریں تو ان کی بات رد کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ 21، لقمٰن: 15)ترجمہ: اگر وہ تم پردباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔

(7) اولاد کو اپنے والد کے دوستوں اور اپنی والدہ کی سہیلیوں کی تعظیم کرنی چاہیے۔ سو والدین کا احترام کس قدر زیادہ ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے دوستوں کا احترام ان کی وفات کے بعد بھی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق جوڑ کر رکھے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

(8) اولاد خود اور اولاد کا مال، والدین کا ہی ہوتا ہے، لیکن اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اولاد کی ذمہ داری ہے کہ والدین کی مالی امداد کرے اور جس طرح بچپن میں والدین نے اس کی ہر خواہش و حاجت پوری کی اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کی ہر حاجت پوری کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

اللہ سے دعا ہے‌کہ وہ ہمیں والدین کی اطاعت کرنے اور‌ان کے حقوق‌ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان میں جو ہمارے لئے سب سے انمول نعمت ہے وہ ہمارے والدین ہیں۔ قرآن اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد تو والدین کو اولڈ ہاوس( Old House) تک پہنچادیتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے: چنانچہ حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں الله پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے الله پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا رسول الله! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

والدین کے حقوق:

عزت و احترام کرنا: اولاد پر حق ہے کہ وہ والدین کی ہمیشہ عزت کرے ان کے ساتھ بلند آواز سے گفتگو نہ کرے ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔

احسانات اور کاوشوں کی قدر دانی: والدین کے اولاد پر بےشمار احسانات ہیں اولاد اگر چاہے بھی تو عمر بھر ان کا حق نہیں ادا کرپائے گی۔

جائز حکم پر اطاعت کرنا: اولاد کا حق ہے کہ وہ والدین کے ہر حکم پر جو شریعت کے خلاف نہیں ان کی اطاعت کرے، اپنے ہر عمل کو ان کے حکم پر مقدم نہ کرے اور ان کے آرام و سکون کا خاص خیال رکھے۔

حاجات اور ضروریات کو پورا کرنا: والدین کی ہر چھوٹی سی چھوٹی ضروریات کو پورا کیا جائے اور یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھی جائے کہ انہوں نے ہم پر بچپن سے لے کر اب تک بےشمار احسانات کیے ہیں ہماری ضروریات، ہماری خواہشات کا خیال رکھا ہے اب ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ان کا خیال رکھیں۔

ان کی زیارت کرنا: شادمانی اور لمبی عمر کے لئے کثرت سے دعا مانگنا والدین کی زیارت دلوں کی تسکین کا باعث ہے کوشش یہی کی جائے کہ باربار ان کی زیارت کی جائے، ان کے لئے وقتا فوقتا تحائف لائے جائیں، ان کی لمبی عمر کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے اور اگر والدین وفات پاجائے تو ان کے دعائے مغفرت کرتے رہنا اور ان کی قبور پر زیارت کے لئے جاتے رہنا چاہیے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ اپنے والدین کے حقوق ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے والدین کا سایہ شفقت ہم پر ہمیشہ سلامت رکھے آمین۔


ہر مرد و عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق کو بھی ادا کرنا فرض ہے خاص کر نیچے لکھے ہوئے چند حقوق کا خیال تو خاص طور پر رکھنا بے حد ضروری ہے۔

1۔خبر دار خبر دار ہرگز ہرگز اپنے کسی قول و فعل سے ماں باپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں۔ اگر چہ ماں باپ اولاد پر کچھ زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی اور کسی حال میں بھی ماں باپ کا دل نہ دکھا ئیں۔

2۔ کبھی کبھی ماں باپ کی قبروں کی زیارت کے لئے بھی جایا کریں۔ ان کے مزاروں پر فاتحہ پڑھیں۔ سلام کریں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں اس سے ماں باپ کی ارواح کو خوشی ہوگی اور فاتحہ کا ثواب فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کریں گے اور ماں باپ خوش ہو کر اپنے بیٹے بیٹیوں کو دعائیں دیں گے۔

3۔اگر ماں باپ اپنی ضرورت سے اولاد کے مال و سامان میں سے کوئی چیز لے لیں تو خبردار خبر دار ہرگز ہرگز برا نہ مانیں۔ نہ اظہار ناراضگی کریں۔ بلکہ یہ سمجھیں کہ میں اور میرا مال سب ماں باپ ہی کا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک شخص سے یہ فرمایا کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

4۔ماں باپ کے ذمہ جو قرض ہو اس کو ادا کریں یا جن کاموں کی وہ وصیت کر گئے ہوں۔ ان کی وصیتوں پر عمل کریں۔

5۔ہر جائز کام میں ماں باپ کے حکموں کی فرماں برداری کرے۔ اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان و مال سے انکی خدمت کرے۔


اسلام نے والدین کے کتنے مراتب و حقوق رکھے ہیں یہ بات معاشرے میں کسی سے مخفی نہیں اور اولاد پر جو حقوق ان کے ہیں وہ بھی واضح طور پر بیان کردیئے ہیں اگر ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم صادر فرمایا ہے اور انسان کو اس کا پابند بنایا ہے، جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔

انسان والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پا لو گے اور اس کے برعکس اگر تم ان کی نافرمانی اور ایذا رسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

حدیث شریف میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے۔

ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں صحابی نے تیسری مرتبہ پوچھا اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ کونسا عمل اللہ پاک کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز کو وقت پر ادا کرنا میں نے کہا پھر فرمایا: ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا میں نے کہا پھر فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا میں اگر اور بھی پوچھتا تو آپ ﷺ جواب دیتے۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ یہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے لیے یوں دعا کرتے رہنا کہ اے ہمارے پروردگار! تو ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 24)

ماں باپ کو گالی دینا بڑا گناہ ہے۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)ماں باپ میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

1۔دل و جان سے ان کی عزت واحترام کرنا (اگرچہ وہ کافر ہوں)۔

2۔ حسن سلوک اور محبت و الفت کا معاملہ کرنا ۔

3۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا۔

4۔ ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر کرنا۔

5۔ ان کی حاجات و ضروریات پوری کر کے انہیں راحت پہنچانا۔

6۔ ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیےدعا کرنا ۔

7۔ کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔

ابو اسید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ میں سے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا: کہ یارسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے بھی حق ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ان کے لیے خیر و رحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا، اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اور پرورش وغیرہ پر جو بے انتہاء تکالیف برداشت کرتے ہیں، اس میں ان کے پیش نظر ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑھاپے کے ایام میں اولاد ان کا سہارا بنے اور محتاجی وبے بسی کے ان دنوں میں ہر طرح سے ان کا خیال رکھے۔

ماں باپ کا حق ماننے کی تاکید۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-21، لقمن: 14) ترجمہ: میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا۔

فرمان باری تعالیٰ: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے فقط والدین کے متعلق یہ6 احکام بیان فرمائے ہیں:

(1) ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو یعنی ہر طرح سے والدین کی خدمت گاری کرو کیونکہ وہ تمہارے وجود اور زندگی کا ظاہری سبب ہیں۔ (روح البیان، 5/ 146)

(2)جب والدین بڑھاپے کی حالت کو پہنچ جائیں توانہیں اف تک نہ کہو: یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے طبیعت پر کچھ گرانی (بوجھ) ہے۔

(3) یاد رہے کہ تعظیم اور توہین کادارو مدارعرف پر ہے، لہٰذا جو کلمہ عرف میں والدین کی توہین شمار ہوتا ہے وہ والدین کے لیے استعمال کرناان کی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ (4)والدین کو جھڑکنا نہیں۔ (5)والدین سے خوبصورت، نرم بات کہنا۔ (6)والدین کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھو۔ (7)والدین کے لیے دعا کرو۔

حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا: اللہ کی بارگاہ میں کونسا عمل زیادہ پسندیدہ ہے؟ ارشاد فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کی: پھر کونساہے؟ ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے عرض کی: پھر کونسا ہے ؟ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اولاد پر ماں باپ کے کئی حقوق لازم ہیں۔ چنانچہ حضرت فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والدین کے اولاد پر دس 10حقوق ہیں: (1) جب انہیں کھانے کی ضرورت ہوتو انہیں کھلائے۔ (2) کپڑوں کی ضرورت ہوتو حسب استطاعت کپڑے پہنائے۔ (3) انہیں خدمت کی ضرورت ہوتو خدمت کرے۔ (4) وہ جب بلائیں تو جواب دے اور حاضر ہو جائے۔ (5) گناہ اور غیبت کے علاوہ ہر کام میں ان کی فرمانبرداری کرے۔ (6) ان سے نرم لہجے میں بات کرے، سختی سے کلام نہ کرے۔ (7) انہیں نام سے نہ پکارے۔ (8) ان کے پیچھے چلے۔ (9) جو چیز اپنے لیے پسند کرے ان کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے اور جو اپنے لیے ناپسند کرے اسے ان کے لیے بھی ناپسند کرے۔ (10) جب بھی اپنے لیے دعا مانگے ان کے لیے بھی دعائے مغفرت ضرور کرے۔ (عمدۃ القاری، 4/ 20، تحت الحدیث: 527)

الله کریم عقوق (یعنی والدین کی نافرمانی ) سے بچائے اور ادائے حقوق کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی عبادت و بندگی کے متصل بعد انسان کو والدین کیلئے حسن سلوک کا حکم دیا ہے دین اسلام میں والدین کیساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔یعنی مخلوق خدا میں حق والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے،والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اپنا حق ذکر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرنا اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا،اسکے بعد والدین کا حق ذکر فرمایا کہ ان سے اچھا برتاؤ کرنا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے حق کے بعد سب سے پہلا حق والدین کا ہے،یعنی حقوق العباد میں سب سے مقدم حق والدین ہے۔جس طرح سب کا معبود حقیقی ایک ہی ہے اسی طرح ہر شخص کا باپ اور ماں بھی ایک ہی ہے،یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالق حقیقی کیساتھ۔

والدین کے حقوق بےشمار ہیں چنانچہ چند ان میں سے ملاحظہ ہو:

(1)پہلی بات یہ کہ تم نے انہیں اف تک نہیں کہنا، اف سے مراد ہر تکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے۔

(2)۔دوسری بات یہ ہے کہ تم نے انہیں جھڑکنا بھی نہیں۔یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے۔اگر اولاد کو والدین کی کسی بات پر غصہ بھی آئے تو برداشت کرے،انہیں نہ جھڑکے اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کرے۔

( 3)تیسری بات یہ کہ والدین سے بات کرو تو ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو۔

(4)۔چوتھی بات والدین پر رحم و ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی و انکساری کیساتھ جھک کر رہو۔

(5) پانچویں بات یہ کہ ان سے اچھے برتاؤ کیساتھ ساتھ ان کیلئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے میرے رب!ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے (محبت وشفقت کیساتھ) بچپن میں میری پرورش کی۔

والدین اگرچہ غیر مسلم بھی ہوں تو انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں والدین سے حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم ملاحظہ ہو، چنانچہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کا حکم سمجھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ ان سے ادب و احترام سے پیش آئیں ان پر اپنا مال خرچ کریں اور انکی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی تلاش کریں۔

الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کو راضی رکھنے اور ان کے تمام حقوق ادا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے اور ہمارے والدین کا سایہ شفقت ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان میں جو ہمارے لئے سب سے انمول نعمت ہے وہ ہمارے والدین ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد تو والدین کو اولڈ ہاوس( Old House) تک پہنچادیتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں الله پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے الله پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا رسول الله! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

والدین کے حقوق: دل و جان سے ان کی عزت و احترام کرنا (اگر چہ وہ کافر ہوں)۔ حسن سلوک اور محبت و الفت کا معاملہ کرنا۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا۔ ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر دانی کرنا۔ ان کی حاجات و ضروریات پوری کر کے انہیں راحت پہنچانا۔ ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیے دعا کرنا۔ کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔

انتقال کے بعد حقوق: ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔ ایصال ثواب کرنا۔ ان پر کسی کا قرض ہو تو اداء کرنا۔ ان کی وصیت پوری کرنا۔ ان کے رشتہ داروں اور دوست احباب کا اکرام کرنا۔ ان کے اعزہ، اقارب اور دوستوں کی معاونت کرنا۔ وقتا فوقتا ان کی قبر کی زیارت کرنا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کا احترام کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے۔ وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے باعث تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔ (خازن، 1/66)

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے اپنے حق کے فورا بعد حق والدین کو بیان فرمایا۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح سب کا معبود حقیقی ایک ہی ہے اسی طرح ہر شخص کا باپ اور ماں بھی ایک ہی ہے،یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالق حقیقی کیساتھ، اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے پانچ باتوں کو لازم قرار دیا ہے۔

پہلی بات یہ کہ تم نے انہیں اف تک نہیں کہنا، اف سے مراد ہر تکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے۔لہذا اولاد پر لازم ہیکہ والدین سے نرمی اور اچھے انداز میں بات کرے،یعنی والدین کی کوئی بات ناگوار بھی گزرے تو اولاد ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اف تک نہ کہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ تم نے انہیں جھڑکنا بھی نہیں۔یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے۔اگر اولاد کو والدین کی کسی بات پر غصہ بھی آئے تو برداشت کرے،انہیں نہ جھڑکے اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کرے۔

تیسری بات یہ کہ والدین سے بات کرو تو ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو۔

چوتھی بات والدین پر رحم و ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی و انکساری کیساتھ جھک کر رہو۔بعض حضرات کا کہنا ہےکہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتی ہے اور ہر طرح سے انکی حفاظت کرتی ہے،اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں تو اولاد ہر دم انکی حفاظت کرے،انکے سامنے نہایت عاجزی و انکساری کیساتھ رہے۔

اللہ کریم ہمیں والدین کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین