وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت اور اس کے بعد والی 16 آیات میں اللہ پاک نے تقریباً 25 کاموں کا حکم دیا ہے آیت کے ابتدائی حصے کا معنیٰ یہ ہے کہ تمہارے رب پاک نے حکم فرمایا کہ تم اللہ پاک کی عبادت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں جو کام کرنے کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے انہیں کرو اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے بچو اس میں آپ ﷺ کی رسالت کا اقرار ان سے محبت اور ان کی تعظیم کرنا بھی داخل ہے کیونکہ اس کا بھی اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ 3، آل عمران: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔

اللہ پاک نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کی تخلیق اور ایجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے والدین ہیں اس لیئے اللہ پاک نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ!سب سے زیادہ حسن صحبت (یعنی احسان کا) مستحق کون ہے ؟ارشاد فرمایا تمہاری ماں کا حق سب سے زیادہ ہے انہوں نے پھر پوچھا پھر کون ؟ ارشاد فرمایا تمہاری ماں انہوں پوچھا پھر کون ارشاد فرمایا تمہارا والد۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کی ساتھ باپ کے نہ ہونے (یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

حضرت ابو اسید بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے: 1ماں باپ کا نافرمان 2 دیوث 3 مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، 2/43، حدیث: 2443)

اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آ مین

دین اسلام بہت خوبصورت دین ہے۔ ہمارا دین جہاں ہمیں حقوق العباد کی تلقین کرتا ہے وہاں والدین کے حقوق ادا کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے ذیل میں قرآن و سنت کی روشنی میں والدین کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں۔

حسن سلوک والدین کے اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: نیک سلوک اور عمدہ برتاؤ کی سب سے زیادہ حقدار ماں ہے۔

حسن سلوک اور عمدہ عبادت کی زیادہ حقدار ماں ہے۔اسکی وجہ قرآن پاک میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی ماں نے اسکو سخت تکلیف سےپیٹ میں اٹھائے رکھا اور بڑی مشقت سے اس کو جنا اور اس کا دودھ تیس کہنے چھڑایا۔ (پ 26، الاحقاف:15)

2: شکر گزاری والدین کا یہ حق ہے کہ اولاد ساری زندگی ان کے احسانات کا شکر ادا کرتی رہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بےرخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

3۔ اطاعت و فرمانبرداری اولاد کا یہ فرض ہے کہ سوائے خلاف شرع کاموں کے ہر بات میں والدین کی اطاعت کرے۔ قرآن مجید میں ہے: تم ان کے سامنے شفقت اور عاجزی سے جھکے رہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا خواب سنایا تو بیٹے نے کمال درجے کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے سر تسلیم خم کر دیا۔

4۔ مالی وجسمانی خدمت مالی وجسمانی دونوں طرح کی خدمت کے اولین حق دار ماں باپ ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کہہ دیجیے جو مال تم خرچ کرو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرو۔ ایک روز نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوار ہوا، خوار ہوا، خوار ہوا۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکےجنت حاصل نہ کی۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

نبی کریم ﷺ نے ایک بوڑھے والد کی شکایت پر اس کے بیٹے سے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔(ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

5۔ میراث اگر خدانخواستہ والدین کی زندگی میں ان کی اولاد میں سے کوئی وفات پا جائے اور وہ کچھ مال یا جائیداد چھوڑے تو اس میں والدین کا بھی حق ہوتا ہے۔اگر متوفی کی اولاد ہے تو والدین میں سے ہر ایک کو مال کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اولاد نہیں ہے اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہو تو ماں کو تہائی حصہ ملےگا اور باقی باپ کو۔


اپنے والدین کا احترام دنیاوآخرت میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں۔

والدین کے پانچ حقوق:

( 1)اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان و مال سے انکی اس حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔

(2)ماں باپ کا انتقال ہوجائے تو ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔

(3) باپ کی نافرمانی اللہ جبّار و قہّار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضی اللہ جبّار و قہّار کی ناراضی ہے، آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 384)

(4) (والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ) ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ شریف پڑھنا ایسی (یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)

اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کو سلامت رکھے آمین ثم آمین 

انسان کے والدین انسان کے وجود میں آنے کا سبب ہوتے ہیں اور سب سے گہرا رشتہ جو ہوتا ہے وہ انسان کا اپنے ماں باپ کے ساتھ ہوتا ہے جن کے ساتھ اس کا تعلق سب سے گہرا ہوتا ہے دنیا میں جو اس کا پہلا رشتہ قائم ہوتا ہے کہ جس میں شفقت ہے محبت ہے وہ اس کے ماں باپ کے ساتھ ہیں اس لیے اس رشتے کے اعتبار سے جو ہمارا دین ہمیں تعلیمات دیتا ہے وہ بھی اتنے ہی اعلیٰ درجے کی ہیں۔ اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن تعلق کو اس قدر اعلیٰ انداز میں بیان کیا اور اسے اہمیت کے اس مقام کے اوپر فائز کر دیا جو کسی اور مذہب کے اندر نہیں ملتا۔

والدین کے حقوق:

اس میں جو سب سے پہلا حق ہے وہ یہ ہے: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہ ایک ایسا جامع حق ہے کہ بقیہ حقوق اسی میں آتے ہیں اب اس حق کو اللہ تعالی نے قران مجید میں کس بلندی اور کس عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے، چنانچہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ماں یا باپ کو دور سے آتا دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جایئے، ان سے آنکھیں ملاکر بات مت کیجئے، بلائیں تو فوراً لبّیک کہئے۔ چنانچہ بہار شریعت حصّہ 16 صفحہ 202پر ہے: یہ (یعنی بیٹا) پردیس میں ہے، والدین اسے بلاتے ہیں تو آنا ہی ہوگا، خط لکھنا کافی نہیں ہے۔ یوہیں والدین کو اس کی خدمت کی حاجت ہو تو آئے اور ان کی خدمت کرے۔

والدین کے ساتھ تمیز کے ساتھ آپ جناب سے بات کیجئے، ان کی آواز پر ہرگز اپنی آواز بلند نہ ہونے دیجئے، حضرت عبد اللہ بن عون رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی ماں نے بلایاتو جواب دیتے وقت ان کی آواز قدرے (یعنی تھوڑی سی) بلند ہوگئی، اس وجہ سے انہوں نے دو غلام آزاد کیے۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/45، رقم: 3103)

اللہ پاک پارہ 15سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر23میں ارشادفرماتاہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اس آیت کریمہ میں بھی ماں باپ کے حقوق خود اللہ پاک نے بیان فرمائے ہیں اور اولاد کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے والدین کی خاطر یوں دعا کرے جیسے بیان کردہ آیت میں فرمایا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں والدین کے یہ حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں کہ ان (یعنی والدین) کا نام لے کر کبھی نہیں بلانا چاہیے اور چلو تو ان کے آگے نہیں چلنا چاہیے اگر کسی مجلس میں بیٹھے ہو تو ان سے آگے ہو کے نہیں بیٹھنا بلکہ ان کے پیچھے بیٹھنا چاہیے، یاد رکھئیے کہ والدین کا دل دکھانے والا اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتا ہے اورآخرت کے عذاب کابھی حقدار ہوتا ہے۔

دل دکھانا چھوڑ دیں ماں باپ کا ورنہ اس میں ہے خسارہ آپ کا

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق کو دل و جان سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام کی تعلیمات کو جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے حقوق کا پتہ ملتا ہے، ایک تو حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد،خدا کو ایک ماننا تنہا اس کی عبادت کرنا، نماز پڑھنا۔روزہ رکھنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں، والدین کے ساتھ حسن وسلوک ااولاد کے ساتھ رحم وکرم،یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العبادہیں۔

خدائے پاک کی عبادت کریں اس کے ساتھ بڑاحق یہ ہے کہ پروردگارعالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب والدین کو اف تک کہنے سے منع فرمادیا۔

خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حدیث پاک میں بھی والدین کے حقوق کے بارے ارشاد فرمایا گیا ہے چنانچہ:

1)مشہور صحابئ رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے سرکار علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

(3)اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ !اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

انسان اس دنیا میں اپنے وجود کیلئے ذات باری تعالی کے بعد سب سے زیادہ محتاج والدین کا ہے کوئی بھی بچہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو گوشت و پوست کا ایک ننھا سا وجود ہوتا ہے جس میں نہ بولنے کی طاقت ہوتی ہے، نہ چلنے پھرنے کی سکت، اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کھاپی سکے، ایسے وقت میں ماں کا وجود اسکے لئے ایک بڑی نعمت ہوتی ہے، وہ ہر لمحے اسکی نگہبانی کرتی ہے اسے دودھ پلاتی اور اسکی پرورش و نگہداشت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔باپ کی شفقت اسے زمانے کے سرد و غم سے بچاتی ہے اس کی محبت کی چھاوں اسے ہر سختی، تکلیف اور رنج سے دور کردیتی ہے، ان دونوں کی پرورش کے نتیجے میں جب وہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اسے اس مقام تک پہنچانے والے اللہ تعالی کے بعد اسکے والدین ہیں۔

ماں باپ کے احسان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ ان میں سے چند اہم حقوق یہ ہیں:

1۔ طاعت و فرمانبرداری: اگر والدین کسی ایسے کام کا حکم نہیں دےرہے ہیں جس میں اللہ تعالی کی معصیت ہے یا کسی بندے پر ظلم اور اسکی حق تلفی ہےتو انکی اطاعت واجب ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ 21، لقمٰن: 15)ترجمہ: اگر وہ تم پردباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت کی تکمیل والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی والد کی نافرمانی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

2۔ تعظیم و توقیر: قول و فعل کے ذریعہ والدین کی توقیر انکا واجبی حق ہے حتی کہ انکے سامنے اف کر دینے میں انکی بے حرمتی اور انکے ساتھ بدسلوکی ہے۔

اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما۔

3۔ خدمت: مالی اور بدنی دونوں ذریعہ حتی الامکان انکی مدد کرنا اور انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ میرے باپ میرا سارا مال لے لیتے ہیں میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کاہے تمہاری سب سے پاک روزی تمہاری اپنے ہاتھ کی کمائی ہے اور تمہاری اولاد کا مال تمہاری کمائی میں داخل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

4۔ دعا: والدین جب اس دنیا سے جاچکے ہوں بلکہ اگر وہ بقید حیات ہوں تو بھی اولاد کی دعا کے سخت محتاج ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام کی تعلیمات کو جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے حقوق کا پتہ ملتا ہے، ایک تو حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد،خدا کو ایک ماننا تنہا اس کی عبادت کرنا، نماز پڑھنا۔روزہ رکھنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں،والدین کے ساتھ حسن وسلوکااولاد کے ساتھ رحم وکرم،یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العبادہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حقوق اللہ میں سب سے بڑا حق توحید و خداپرستی ہےکہ ایک خدائے پاک کی عبادت کریں اس کی ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور حقوق العباد میں سب سی بڑاحق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں،اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں،یہی وجہ ہے کہ پروردگارعالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب والدین کو اف تک کہنے سے منع فرمادیا۔

والدین کے ساتھ حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار آیات کریمہ ہیں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے، خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:

(1) وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

(3) اور دوسری جگہ ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

والدین کے حقوق اور حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار احادیث کریمہ ہیں جن میں حضور ﷺ نے بہت تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ اچھا سلوک کریں اور انہیں تکلیف نہ دیں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے۔

(1)مشہور صحابئ رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے سرکار علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

(2)اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ !اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

(3)حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا کیامیں تمہیں تین بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورسرکار علیہ السلام نے فرمایا: تین لوگوں کی دعا قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا،مسافر کی دعا،اور اولاد کے خلاف والدین کی دعا۔ لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ہمیشہ ایسی حرکت سے پرہیز کرے، جس کے سبب والدین کو اس کی خلاف بد دعا کرنی پڑے، اور والدین کوبھی چاہیے کہ حتیٰ المقدور ان پر بد دعا کرنے سے بچے۔ ورنہ مقبول ہونے پر خود ہی پچھتانا پڑیگا، جیساکہ آج دنیا میں اس کا مشاہدہ کیا جاتاہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ والدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ کعبہ کی طرف دیکھناعبادت ہے۔ قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ جس بھائی کے لیے اللہ کے لیے محبت ہو اس پر نظر ڈالنا عبادت ہے۔

اور جو والدین کو ناراض کرے ان کے حقوق کوادانہ کرے۔ ان کے بارے میں سرکار دوعالم فرماتے ہیں تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے فر ض کو، اور نہ نفلوں کو قبول کرتاہے: ماں باپ کو ایذادینے والا اور صدقہ دے کر احسان جتلانے والا اور تقدیر کا جھٹلانے والا۔

ماں کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا،پوچھنے لگا !اے اللہ کے رسول سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟کہ اس کے سا تھ حسن و سلوک کرو ں۔ آپ نے فرما یا: تیری ماں کا، پوچھا، پھر کس کا، آپ نے فرما یا تیری ما ں، پوچھا، پھر کس کا ؟آپ نے فرمایا تیری ما ں کا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

کیوں کہ حمل وضع حمل، اور دودھ پلانے کی شفقت اور صعوبت صرف ما ں اٹھاتی ہے باپ نہیں اٹھاتا، اس وجہ سے ما ں کا حق زیادہ ہے۔

اولاد پر والدین کے حقوق بعد وفات: اسلام کی تعلیمات میں جہا ں بار بار تاکید سنایا گیا کہ دنیا وی زندگی میں والدین کے ساتھ حسن و سلوک کریں اور دوسری طرف یہ درس بھی دیا کہ وہ دنیا سے چلے جائیں تو ان کے ساتھ حسن و سلوک کرو۔ان کے کی لئے ہمیشہ دعاء و استغفار کرو،صدقہ و خیرات واعمال صالحہ کا ثواب انہیں پہنچاتے رہو۔

ہا ئے افسوس !آج معاشرے میں بہت ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے اخلاقی زندگی کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہیں مخلوط خاندانوں میں رشتوں کا تقدس بری طرح پا مال ہو رہا ہے باپ جب تک کماتا ہے، اولاد والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہے مگر جیسے ہی ملازمت سے فراغت کے بعد گھر آتا ہے، تو اسے بیکار اور فالتو تصور کیا جانے لگتا ہے، ما ں باپ کا وجود کتنی بڑی نعمت ہے اس کی قدر وہیں جانتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔ پیاری اسلامی بہنو! ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اور پرورش وغیرہ پر جو بے انتہاء تکالیف برداشت کرتے ہیں، اس میں ان کے پیش نظر ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑھاپے کے ایام میں اولاد ان کا سہارا بنے اور محتاجی وبے بسی کے ان دنوں میں ہر طرح سے ان کا خیال رکھے۔

ماں باپ کا حق ماننے کی تاکید: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ- (پ 21، لقمٰن: 14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدرو اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں، اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)حدیث مبارکہ میں تو والدین کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بے رخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

والدین کا اولاد پر یہ بھی حق ہے کہ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرے۔

قرآن مجید میں والدین کے حق میں یہ دعا سکھائی گئی: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ!کیا والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!ان کی نماز جنازہ پڑھو، ان کی بخشش کی دعا مانگو،ان کے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، ان کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرو اور ان کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی، ان کی فرمانبرداری کی، اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے:  وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے اپنے حق کے فورا بعد حق والدین کو بیان فرمایا۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح سب کا معبود حقیقی ایک ہی ہے اسی طرح ہر شخص کا باپ اور ماں بھی ایک ہی ہے،یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالق حقیقی کیساتھ، اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے پانچ باتوں کو لازم قرار دیا ہے احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے: چنانچہ حضوراکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں، اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو والدین کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یارسول اللہ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بے رخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

والدین کا اولاد پر یہ بھی حق ہے کہ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرے۔

قرآن مجید میں والدین کے حق میں یہ دعا سکھائی گئی: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!ان کی نماز جنازہ پڑھو، ان کی بخشش کی دعا مانگو، ان کے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، ان کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرو اور ان کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی، ان کی فرمانبرداری کی اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اپنے والدین کا احترام دنیاوآخرت میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں۔

والدین کے پانچ حقوق:

( 1)اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان و مال سے انکی اس حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔

(2)ماں باپ کا انتقال ہوجائے تو ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔

(3) باپ کی نافرمانی اللہ جبّار و قہّار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضی اللہ جبّار و قہّار کی ناراضی ہے، آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/384)

(4) والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ شریف پڑھنا ایسی (یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)

(5) اپنی طاقت بھر ان کےساتھ ہر نیکی اور بھلائی کریں۔


اسلام نے والدین کی خدمت و اطاعت اور ان سے حسن سلوک کو بہت اہمیت دی ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جابجا اپنی عبادت کے فورا بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ پیدائش سے موت تک انسان اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے، جب انسان پیدا ہوتا ہے تو والدین ہی اس دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا سارا انتظام کرتے ہیں۔ ہر انسان پر والدین کے اتنے احسانات ہوتے ہیں کہ اگر وہ ساری زندگی بھی ان کی خدمت کرتا رہے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا لیکن وہ ان کے احسانات کے جواب میں ان کی خدمت کر سکتا ہے، ان کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کر سکتا ہے۔ یوں وہ کسی قدر والدین کے احسانات کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اولاد پر والدین کے جو حقوق بیان کئے گئے ان میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ ارشاد باری ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

حقوق والدین احادیث کی روشنی میں:

(1) پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

(2) سب سے افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا، اور والدین سے حسن سلوک کرنا ہے۔

(3) حضورﷺ نے فرمایا کہ جبریل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا: آمین۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(4) ایک شخص حضور ﷺ کے پاس جہاد کی اجازت لینے آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں ہی جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

حقوق والدین: انسان پر اپنے والدین کے بے پناہ حقوق اور احسانات ہوتے ہیں جن کا احاطہ کرنا یہاں محال ہے۔ ان میں سے چیدہ چیدہ کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

(1) والدین کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ والدین کا ادب و احترام کیا جائے، ان سے ہر قسم کی گستاخی سے بچا جائے۔ گفتگو اور بات چیت کے دوران عزت و تکریم کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ان کو جھڑکنا یا اونچی آواز میں بات کرنا بلکہ اف تک کہنے سے گریز کیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

( 2) والدین سے حسن سلوک کا مطلب یہ ہے کہ جیسے بھی ہو سکے ان سے اچھا برتاؤ کرے۔ ان کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ ان کے حکم نورا بجالائے۔ ان کی تمام تکالیف دور کرے۔ دنیا کے جھمیلوں میں لگ کر ان سے بے رخی نہ برتے بلکہ اپنے اوقات میں سے ان کے لئے وقت نکالے اور خوش دلی سے ان کے کام بجالائے۔ والدین کی خدمت واطاعت میں اللہ کی رضا ہے۔ والدین کی خدمت کی اتنی اہمیت ہے کہ اس عمل کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے:

(3) ایک شخص حضور ﷺ کے پاس جہاد کی اجازت لینے آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟، اس نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں ہی جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

(4) والدین کی زندگی میں ان کی لمبی زندگی کیلئے اور ان کی وفات کے بعد ان کی مغفرت کیلئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ پاک نے انسان کو اپنے والدین کے لیے دعا کرنے کا صرف حکم نہیں دیا، بلکہ خود اسے وہ الفاظ سکھائے جن کے ذریعے والدین کیلئے دعا کی جائے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

(5) والدین کی نافرمانی کو سخت ناگوار گردانا گیا ہے۔ اور ان سے ہر طرح کی بدسلوکی سے منع کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے: بڑے گناہ یہ ہیں: (1) خدا کا شریک بنانا (3) والدین کی نافرمانی کرنا (3) ناحق قتل کرنا (4) جھوٹی قسم کھانا۔

(6) مسلمان تو مسلمان، والدین اگر کافر بھی ہوں تب بھی دنیاوی معاملات میں ان کی اطاعت ضروری ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے خلاف بات کریں تو ان کی بات رد کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ 21، لقمٰن: 15)ترجمہ: اگر وہ تم پردباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔

(7) اولاد کو اپنے والد کے دوستوں اور اپنی والدہ کی سہیلیوں کی تعظیم کرنی چاہیے۔ سو والدین کا احترام کس قدر زیادہ ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے دوستوں کا احترام ان کی وفات کے بعد بھی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق جوڑ کر رکھے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

(8) اولاد خود اور اولاد کا مال، والدین کا ہی ہوتا ہے، لیکن اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اولاد کی ذمہ داری ہے کہ والدین کی مالی امداد کرے اور جس طرح بچپن میں والدین نے اس کی ہر خواہش و حاجت پوری کی اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کی ہر حاجت پوری کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

اللہ سے دعا ہے‌کہ وہ ہمیں والدین کی اطاعت کرنے اور‌ان کے حقوق‌ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان میں جو ہمارے لئے سب سے انمول نعمت ہے وہ ہمارے والدین ہیں۔ قرآن اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد تو والدین کو اولڈ ہاوس( Old House) تک پہنچادیتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے: چنانچہ حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں الله پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے الله پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا رسول الله! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

والدین کے حقوق:

عزت و احترام کرنا: اولاد پر حق ہے کہ وہ والدین کی ہمیشہ عزت کرے ان کے ساتھ بلند آواز سے گفتگو نہ کرے ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔

احسانات اور کاوشوں کی قدر دانی: والدین کے اولاد پر بےشمار احسانات ہیں اولاد اگر چاہے بھی تو عمر بھر ان کا حق نہیں ادا کرپائے گی۔

جائز حکم پر اطاعت کرنا: اولاد کا حق ہے کہ وہ والدین کے ہر حکم پر جو شریعت کے خلاف نہیں ان کی اطاعت کرے، اپنے ہر عمل کو ان کے حکم پر مقدم نہ کرے اور ان کے آرام و سکون کا خاص خیال رکھے۔

حاجات اور ضروریات کو پورا کرنا: والدین کی ہر چھوٹی سی چھوٹی ضروریات کو پورا کیا جائے اور یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھی جائے کہ انہوں نے ہم پر بچپن سے لے کر اب تک بےشمار احسانات کیے ہیں ہماری ضروریات، ہماری خواہشات کا خیال رکھا ہے اب ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ان کا خیال رکھیں۔

ان کی زیارت کرنا: شادمانی اور لمبی عمر کے لئے کثرت سے دعا مانگنا والدین کی زیارت دلوں کی تسکین کا باعث ہے کوشش یہی کی جائے کہ باربار ان کی زیارت کی جائے، ان کے لئے وقتا فوقتا تحائف لائے جائیں، ان کی لمبی عمر کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے اور اگر والدین وفات پاجائے تو ان کے دعائے مغفرت کرتے رہنا اور ان کی قبور پر زیارت کے لئے جاتے رہنا چاہیے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ اپنے والدین کے حقوق ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے والدین کا سایہ شفقت ہم پر ہمیشہ سلامت رکھے آمین۔


ہر مرد و عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق کو بھی ادا کرنا فرض ہے خاص کر نیچے لکھے ہوئے چند حقوق کا خیال تو خاص طور پر رکھنا بے حد ضروری ہے۔

1۔خبر دار خبر دار ہرگز ہرگز اپنے کسی قول و فعل سے ماں باپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں۔ اگر چہ ماں باپ اولاد پر کچھ زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی اور کسی حال میں بھی ماں باپ کا دل نہ دکھا ئیں۔

2۔ کبھی کبھی ماں باپ کی قبروں کی زیارت کے لئے بھی جایا کریں۔ ان کے مزاروں پر فاتحہ پڑھیں۔ سلام کریں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں اس سے ماں باپ کی ارواح کو خوشی ہوگی اور فاتحہ کا ثواب فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کریں گے اور ماں باپ خوش ہو کر اپنے بیٹے بیٹیوں کو دعائیں دیں گے۔

3۔اگر ماں باپ اپنی ضرورت سے اولاد کے مال و سامان میں سے کوئی چیز لے لیں تو خبردار خبر دار ہرگز ہرگز برا نہ مانیں۔ نہ اظہار ناراضگی کریں۔ بلکہ یہ سمجھیں کہ میں اور میرا مال سب ماں باپ ہی کا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ایک شخص سے یہ فرمایا کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

4۔ماں باپ کے ذمہ جو قرض ہو اس کو ادا کریں یا جن کاموں کی وہ وصیت کر گئے ہوں۔ ان کی وصیتوں پر عمل کریں۔

5۔ہر جائز کام میں ماں باپ کے حکموں کی فرماں برداری کرے۔ اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان و مال سے انکی خدمت کرے۔