والدین کے 5 حقوق از بنت طارق
محمود،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اسلام نے والدین کی خدمت و اطاعت اور ان سے حسن
سلوک کو بہت اہمیت دی ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جابجا اپنی عبادت کے
فورا بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ پیدائش سے
موت تک انسان اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے، جب انسان پیدا ہوتا ہے تو والدین ہی
اس دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا سارا انتظام کرتے ہیں۔ ہر انسان پر والدین کے
اتنے احسانات ہوتے ہیں کہ اگر وہ ساری زندگی بھی ان کی خدمت کرتا رہے تب بھی ان کے
احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا لیکن وہ ان کے احسانات کے جواب میں ان کی خدمت کر
سکتا ہے، ان کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کر سکتا ہے۔ یوں وہ کسی قدر والدین کے احسانات
کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اولاد پر والدین کے جو حقوق بیان کئے گئے ان
میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ ارشاد باری ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی
اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی
کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
حقوق والدین احادیث کی روشنی میں:
(1) پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں ہے اور
پروردگار کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)
(2) سب
سے افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا، اور والدین سے حسن سلوک کرنا ہے۔
(3) حضورﷺ
نے فرمایا کہ جبریل نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے
کوئی ایک بڑھاپے کو پائیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا: آمین۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)
(4) ایک
شخص حضور ﷺ کے پاس جہاد کی اجازت لینے آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں
! آپ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں ہی جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)
حقوق والدین: انسان پر اپنے
والدین کے بے پناہ حقوق اور احسانات ہوتے ہیں جن کا احاطہ کرنا یہاں محال ہے۔ ان
میں سے چیدہ چیدہ کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
(1) والدین کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ والدین کا
ادب و احترام کیا جائے، ان سے ہر قسم کی گستاخی سے بچا جائے۔ گفتگو اور بات چیت کے
دوران عزت و تکریم کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ان کو جھڑکنا یا اونچی آواز میں بات
کرنا بلکہ اف تک کہنے سے گریز کیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا
قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں
نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
( 2) والدین
سے حسن سلوک کا مطلب یہ ہے کہ جیسے بھی ہو سکے ان سے اچھا برتاؤ کرے۔ ان کی خدمت
میں پیش پیش رہے۔ ان کے حکم نورا بجالائے۔ ان کی تمام تکالیف دور کرے۔ دنیا کے
جھمیلوں میں لگ کر ان سے بے رخی نہ برتے بلکہ اپنے اوقات میں سے ان کے لئے وقت
نکالے اور خوش دلی سے ان کے کام بجالائے۔ والدین کی خدمت واطاعت میں اللہ کی رضا
ہے۔ والدین کی خدمت کی اتنی اہمیت ہے کہ اس عمل کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا
ہے:
(3) ایک
شخص حضور ﷺ کے پاس جہاد کی اجازت لینے آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟، اس نے کہا جی ہاں
! آپ ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں ہی جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)
(4) والدین
کی زندگی میں ان کی لمبی زندگی کیلئے اور ان کی وفات کے بعد ان کی مغفرت کیلئے دعا
کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ پاک نے انسان کو اپنے والدین کے لیے دعا کرنے کا صرف حکم
نہیں دیا، بلکہ خود اسے وہ الفاظ سکھائے جن کے ذریعے والدین کیلئے دعا کی جائے۔ چنانچہ
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: وَ قُلْ رَّبِّ
ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ
15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر
رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔
(5) والدین
کی نافرمانی کو سخت ناگوار گردانا گیا ہے۔ اور ان سے ہر طرح کی بدسلوکی سے منع کیا
گیا ہے۔ حضور ﷺ نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ
ارشاد نبوی ﷺ ہے: بڑے گناہ یہ ہیں: (1) خدا
کا شریک بنانا (3) والدین کی نافرمانی کرنا (3) ناحق قتل کرنا (4) جھوٹی
قسم کھانا۔
(6) مسلمان تو مسلمان، والدین اگر کافر بھی ہوں تب
بھی دنیاوی معاملات میں ان کی اطاعت ضروری ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے خلاف بات کریں تو
ان کی بات رد کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ
اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا
تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ
21، لقمٰن: 15)ترجمہ: اگر وہ تم پردباؤ ڈالیں کہ تم
میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مانو، اور
دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔
(7) اولاد
کو اپنے والد کے دوستوں اور اپنی والدہ کی سہیلیوں کی تعظیم کرنی چاہیے۔ سو والدین
کا احترام کس قدر زیادہ ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے دوستوں کا احترام ان کی وفات کے
بعد بھی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے
والوں سے تعلق جوڑ کر رکھے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)
(8) اولاد
خود اور اولاد کا مال، والدین کا ہی ہوتا ہے، لیکن اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ
جائیں تو اولاد کی ذمہ داری ہے کہ والدین کی مالی امداد کرے اور جس طرح بچپن میں
والدین نے اس کی ہر خواہش و حاجت پوری کی اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کی
ہر حاجت پوری کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ (ابن
ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)
اللہ سے دعا ہےکہ وہ ہمیں والدین کی اطاعت کرنے
اوران کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔