اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کو اللہ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ اولاً عبادت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکم بھی اللہ تعالیٰ ہی کاماننا ہے یہ ایمان کی پہلی شرط ہے۔

اسلام میں والدین کے حقوق اسلام نے والدین کے کتنے مراتب وحقوق رکھے ہیں یہ بات معاشرے میں کسی سے مخفی نہیں اور اولاد پر جو حقوق ان کے ہیں وہ بھی واضح طور پربیان کر دیئے ہیں۔ اگر ہم قرآن واحادیث کا مطالعہ کریں تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے اورانسان کواس کا پابند بنایا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم جہاں الله تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ اولاً عبادت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکم بھی اللہ تعالیٰ ہی کاماننا ہے یہ ایمان کی پہلی شرط ہے۔ یہ ہدایت ہر نبی اور پیغمبر کی بنیادی اور اولین دعوت حق رہی ہے۔ اس کے بعد قرآن میں پانچ جگہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد ماں باپ کے حکم کی تاکید آئی ہے کہ انسان والدین کی اطاعت اور فرماں برداری کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کوپہنچ جائیں جیسے کہ ارشاد ربانی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بار بار تذکرہ آیا ہے والدین کا بڑا مقام ہے اور یہ مقام الله تعالیٰ نے خود طے کر دیا ہے والدین ہی حسن سلوک و آداب و احترام کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ لہٰذا جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت ضروری ہے۔ وہاں والدین کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالوگے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

والدین کے ساتھ بھلائی اور ان کی خدمت اپنی طاقت بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اور بھلائی کریں۔ان کی کسی بات پر اف یا بشت یا ہونہہ نہ کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے باعث تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بد مذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔ (تفسیر خازن، 1/66)

والدین کے ساتھ عاجزی و انکساری والدین پر رحم و ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی و انکساری کیساتھ جھک کر رہو۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتی ہے اور ہر طرح سے انکی حفاظت کرتی ہے، اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں تو اولاد ہر دم انکی حفاظت کرے، ان کے سامنے نہایت عاجزی و انکساری کیساتھ رہے۔ ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کریں ان کے سامنے نیچا بن کر رہیں اور ان کی آواز سے اپنی آواز پست رکھیں۔

فوت شدہ والدین کی قبروں کی زیارت (والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ) ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبرکے لئے جانا، وہاں یس شریف پڑھنا ایسی ( یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہنچانا، راہ ( یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ ( یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاوی رضویہ، 24/392)

والدین کے لئے دعائے خیر۔ ان کے لیے ہمیشہ غائبانہ طور پر دعا کرتے رہیں۔ دل و زبان سے ان کے حقوق کا اعتراف کریں۔ ان سے دعائیں زیادہ سے زیادہ لینی چاہیے۔ اس کے علاوہ والدین کے بہت سارے حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ان کے دوستوں کی عزت کریں۔ان کی وجہ سے قائم رشتوں کو جوڑیں اور صلہ رحمی کریں۔ان کو گالی دینے برا بھلا کہنے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور جھڑکنے سے بچنا چاہئے۔ان کو گالی دلانے کا سبب بننے سے، بچنا چاہئے۔

ہمارے ذمہ والدین کے بہت زیادہ حقوق ہیں اس کو ادا کرنے کے نتیجہ میں کل ہمارے بچے بھی ہمارے حقوق کی رعایت کریں گے۔ ہم کو ہر روز شام کو تھوڑا وقت والدین کو دینا چاہیے ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے، نرمی سے بات کرنی چاہیے۔ مغرب کی طرح سال میں کوئی ایک دن منانے کی بجائے اللہ کی خوشنودی کے لیے اس دن کوہر روز منانا چاہیے۔ والدین کے احسانات کا بدلہ ساری زندگی لگے رہو، نہیں چکا سکتے۔

اللہ پاک سب کے والدین کا سایہ ان کے سروں پر سلامت رکھے اور جن کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں انہیں صبر عطا کرے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین


والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان سے سبکدوش (بری الذمہ) ہونا ممکن نہیں ہےمعاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں جو محض اس کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہی نہیں بنتے بلکہ اس کی پرورش اور تربیت کا بھی سامان کرتے ہیں دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ایسی ہے جو اپنی راحت اولاد کی راحت پر قربان کر دیتی ہے ان کی شفقت اولاد کے لیے رحمت الٰہی کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو انہیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے انسانیت کا وجود اللہ پاک کے بعد والدین ہی کا مرہون منت ہے اس لیے اللہ پاک نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے بعد والدین کا حق ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! ماں باپ کا اولادپر کیا حق ہے؟ فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں یعنی جو لوگ ان کو راضی رکھیں گے جنت پائیں گے اور جو ان کو ناراض رکھیں گے دوزخ کے مستحق ہوں گے۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

اللہ پاک نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور خصوصاً ان کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے یقیناً والدین کا بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے سخت بڑھاپے میں بسا اوقات بستر ہی پر بول وبراز یعنی گندگی کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے مگر یاد رکھیے! ایسے حالات میں بھی والدین کی خدمت لازمی ہے بچپن میں ماں بھی تو آخر بچے کی گندگی برداشت کرتی ہی ہے بڑھاپے اور بیماریوں کے سبب والدین کے اندر خواہ کتنا ہی چڑچڑاپن آجائے خوب بڑبڑائیں بلاوجہ لڑیں خواہ کتنا ہی جھگڑیں بے شک پریشان کریں مگر صبر صبر اور صبر ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا ہے ان سے بدتمیزی کرنا ان کو جھاڑنا وغیرہ درکنار ان کے آگے اف تک نہیں کرنا ہے ورنہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے اور دونوں جہان کی تباہی مقدر بن سکتی ہے کہ والدین کا دل دکھانے والا اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتا ہے اور آخرت کے عذاب کا بھی حقدار ہوتا ہے۔ (سمندری گنبد، ص16تا17)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

والدین کا احترام دنیا وآخرت دونوں جہان میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے ۔

والدین کے چند حقوق پیش خدمت ہیں:

والدین کی خدمت کیا کرو اور ان سے اف تک نہ کرو ۔والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو ۔

ہرگز ہرگز اپنے کسی قول وفعل سے والدین کو تکلیف نہ دیں اپنی ہر بات اور کام سے والدین کی تعظیم وتکریم کرے اور ہمیشہ ان کی عزت واحترام کا خیال رکھے ۔ہر جائز کام میں والدین کا حکم مانے ۔اگر والدین کو کوئی ضرورت ہو تو جان و مال سے ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرے ۔والدین کا انتقال ہو جائے تو ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہیں اور فاتحہ وغیرہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں ۔والدین کے ذمہ جو قرض ہو اس کو ادا کریں جن کاموں کی وہ وصیت کر گے ہوں ان کو پورا کریں ۔والدین کی قبروں کی زیارت کے لیے بھی جایا کریں۔


معاشرے میں انسان کو جن ہستیون سے زیادہ مدد سرپرستی اور سہارا ملتا ہے وہ والدین ہیں والدین صرف اپنی اولاد کی پیدائش ہی کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ اس کی پرورش اور تربیت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ انسانی بچے کی پرورش سب سے مشکل کام ہے اسی لیے قرآن و سنت میں توحید ورسالت کے بعد والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔

والدین کے حقوق کے بارے میں احادیث: حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اللہ تعالیٰ کو کو ن سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آ پ ﷺ نے فرمایا وقت پر نماز پڑھنا انہوں نے پھر پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا ماں باپ سے نیک سلوک کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970) نبی کریم ﷺ کے ارشادات گرا می یہ ہیں کہ چچا باپ کی مانند اور خالہ ماں کی مانند ہے۔

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے والدین کی وفات کے بعد رشتہ داروں سے اچھے سلو ک کو والدین کے ساتھ نیکی قرار دیا۔

ایک حدیث میں ارشاد ہوا کہ بہترین نیکی یہ ہے کہ باپ کے تعلق داروں اور محبت والوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔(مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوار ہو خوار ہو خوار ہو اصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول ﷺ کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کی۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

اللہ پاک ہمیں ماں باپ کا فرمانبردار بنائے اور نافرمانی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین


سب رشتوں میں افضل والدین کا مقام ہے اور شریعت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا سختی سے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کے بعد والدین سے اچھا سلوک کرنے کا فرمایا، چنانچہ قرآن پاک میں ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

والدین کے حقوق بے شمار ہیں جن میں سے 5 مندرجہ ذیل یہ ہیں:

1۔ جس شخص نے صبح اس حال میں کی کہ اس کے ماں باپ اس سے راضی تھے تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے اور جس نے شام بھی اسی طرح کی تو اس کے لئے بھی اس کی مثل ہے اور اگر ایک راضی ہو تو ایک دروازہ کھلے گا، اگر چہ وہ دونوں ظلم کریں اور یہ بات آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمائی۔ (شعب الايمان، 6/206، حدیث: 7916)

2۔ بے شک جنت کی خوشبو 500 سال کی مسافت سے سو نگھی جاسکتی ہے مگر ماں باپ کا نافرمان اور قطع رحمی کرنے والا اس کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/187، حديث: 5662)

3۔ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ بھلائی کرو پھر حسب مراتب دیگر رشتہ داروں کے ساتھ۔ (ابوداود، 4/433، حدیث: 5139)

4۔ حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بار گاہ رسالت میں حاضر تھے کہ قبیلہ بنو سلمہ کے ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: يا رسول الله! کیا مجھ پر میرے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں کچھ حق باقی ہے کہ جس کو میں ان کی وفات کے بعد ادا کروں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ! ان کے لئے دعا کرو، ان کی مغفرت چاہو، ان کے وعدوں کو پورا کرو، ان کے دوستوں کی عزت کرو اور صلہ رحمی کرو کیونکہ والدین کے سبب ہی صلہ رحمی کا سلسلہ ہے۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

5۔ بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ بندہ اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ پاک ہمارے والدین کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ آمین ثم آمین


الله پاک اور اس کے رسول ﷺ کے بعد دنیا کے تمام رشتوں میں والدین کا رشتہ سب سے بلند ہے کیونکہ معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد،سرپرستی اور سہارا ملتا ہے وہ والدین ہیں والدین صرف اپنی اولاد کی پیدائش کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ ان کی پرورش اور تربیت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-(پ 26، الاحقاف: 15) ترجمہ: اور ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔اس آیت میں الله تعالیٰ نے آدمی کو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار رہنے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔

والدین کے 5 حقوق:

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے سرور کائنات ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو مزید خاک آلود ہو، مزید خاک آلود ہو، کسی نے پوچھا: یا رسول الله ﷺ کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

2۔ حضرت ابو عبد الرحمٰن عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا الله تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا، میں نے عرض کی:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، میں نے عرض کی: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی بھی بیٹا باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا ماسوائے اس کے کہ وہ باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے ۔ (مسلم، ص 624، حدیث:3799)

4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میرے اچھے سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ ﷺ فرمایا: تمہاری ماں اس نے کہا پھر کون ؟ (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

5۔ ایک روایت میں ہے نبی کریم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: والدین کے ساتھ بھلائی کرنا، نماز، صدقہ، روزہ، حج، عمرہ اور راہ خدا میں جہاد کرنے سے افضل ہے۔

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ والدین کا مقام انتہائی بلند ہے اور والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، والدین کی نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدر توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔

الله رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کرنے ان کی خوب خوب خدمت بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور انکا سایہ تاقیامت ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ آمین


ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق کو بھی ادا کرنا فرض ہے۔ اپنے کسی قول یا فعل سے ماں باپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں، اگر چہ ماں باپ اولاد پر کچھ زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی اور کسی حال میں بھی ماں باپ کا دل نہ دکھائیں۔ اپنی ہر بات اور اپنے ہر عمل سے ماں باپ کی تعظیم و تکریم کرے اور ہمیشہ انکی عزت و حرمت کا خیال رکھے۔ ہرجائز کام میں ماں باپ کے حکموں کی فرمانبرداری کرتے رہنا چاہیے۔

حدیث شریف کی روشنی میں والدین کے حقوق ملاحظہ فرمائیے۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں، آپ نے پوچھا تیرے والد ین میں سے کوئی زندہ ہے؟ عرض کی دونوں زندہ ہیں، آپ نے فرمایا جا اور والدین کی خدمت کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

رسول ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اولاد پر والدین کے کیا حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ تیری جنت اور جہنم ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

حضور ﷺ ایک منبر پر تشریف فرما ہوے اور فرمایا آمین آمین آمین، پھر فرمایا:جبریل آئے اور انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو پایا اور اس سے حسن سلوک نہ کیا اور مر گیا تو وہ جہنم میں گیا، اللہ اسے دورکرے، آپ آمین الھم آمین الھم آمین الھم آمین کہیں! تو میں نے آمین الھم آمین الھم آمین الھم آمین کہی۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

فرمان رسول ﷺ ہے کہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کے سفر کی دوری سے پائی جاتی ہے مگر والدین کا نافرمان اور قطعی رحمی کرنے والا اس خوشبو کو نہیں پائے گا۔ (معجم اوسط، 4/187، حديث: 5662)

ایک روایت میں ہے دوسرے لوگوں کی عورتوں سے درگزر کرو، تمہاری عورتوں سے درگزر کیا جائے گا، اپنے والدین سے حسن سلوک کرو تمہاری اولاد تم سے حسن سلوک کرے گی۔

خوب یاد رکھیں !اگر آپ اپنے والدین کے ساتھ اچھا یا برا سلوک کریں گے توویسا ہی سلوک آپ کی اولاد آپکے ساتھ کرے گی اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے رزق میں ترقی اور عمر میں خیرو برکت ہوتی ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو والدین کے حقوق اخلاص کے ساتھ پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی عبادت و بندگی کے متصل بعد انسان کو والدین کیلئے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق ومالک تو رب کائنات ہے جس نے زمین بنائی،ہوا،پانی،سورج،چاند، ستارےوغیرہ پیدا کیے۔ آسمان سے بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کر دیں اور انسان کی پیدائش اور پرورش کا ظاہری سبب اسکے والدین کو بنایا۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں والدین سے حسن سلوک سے پیش آنے کی اہمیت ملاحظہ فرمائیے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون۔؟آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہیکہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بروقت نماز ادا کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: والدین سے نیکی کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ ﷺ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہاری ماں(زندہ) ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں تو آپ ﷺ نے فرمایا ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔ (نسائی، ص 504، حدیث: 3101)

والدین کی رضا میں اللہ تعالی کی رضا ہے۔حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا رب تبارک وتعالی کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور رب تبارک وتعالی کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کا حکم سمجھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ان سے ادب واحترام سے پیش آئیں ان پر اپنا مال خرچ کریں اور انکی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی تلاش کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین کی خدمت کرنے توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین 


الله پاک نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ والدین الله پاک کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ والدین کے حقوق کے بارے میں 05 فرامین مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیں:

01: ایک شخص نے عرض کی یارسول الله ﷺ سب سے زیادہ حسن صحبت ( یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے)۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

02: نہیں ہے کوئی اپنے ماں باپ سے بھلائی کرنے والا لڑکا جو اپنے والدین کو ایک نظر رحمت سے دیکھے مگر الله اس کے لیے ہر نظر کی عوض مقبول حج لکھتا ہے۔ عرض کیا کہ اگرچہ ہر دن سو بار دیکھے؟ فرمایا: ہاں الله بہت بڑا اور بہت پاک ہے۔(شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

03: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو کہ جو والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پائے اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

04: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالوگے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

05: الله پاک گناہوں میں سے جس گناہ کو چاہے معاف فرما دیتا ہے۔ مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرماتا۔ بلکہ اس جرم کی سزا مرنے سے پہلے دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ (شعب الایمان، 6/ 197، حدیث 7890)

انسان کے پاس دنیا میں بہت سے رشتے ہیں لیکن جو رشتہ والدین سے ہے ویسا کوئی نہیں اور اخلاق کا سب سے پہلا سبق بھی یہی ہے کہ والدین کی عزت کی جائے۔ ان کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آیا جائے۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اور دوسروں کے بھی والدین سے حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حسن اخلاق سے پیش آنا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ! میرے حسن اخلاق کا زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں اس نے دوبارہ عرض کی: اس کے بعد کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں تیسری بار عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی ارشاد فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پھر عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

والدین کی بات توجہ سے سننا فرمان حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی شافعی رحمۃ اللہ علیہ: ( بیٹے کو چاہیے کہ ) والدین کی بات توجہ سے سنے، ماں باپ جب کھڑے ہوں تو تعظیما ان کے لئے کھڑا ہو جائے، جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فورا بجا لائے، ان دونوں کے کھانے پینے کا انتظام و انصرام کرے اور نرم ولی سے ان کے لئے عاجزی کا باز و بچھائے، وہ اگر کوئی بات بار بار کہیں تو ان سے اکتا نہ جائے، ان کے ساتھ بھلائی کرے تو ان پراحسان نہ جتلائے، وہ کوئی کام کہیں تو اسے پورا کرنے میں کسی قسم کی شرط نہ لگائے، ان کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور نہ ہی کسی معاملے میں ان کی نا فرمانی کرے۔ ( آداب دین، ص 53)

والدین کی خدمت کرنا حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنھما کا بیان ہےکہ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ!میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ ﷺ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہاری ماں(زندہ) ہے ؟انہوں نے کہا جی ہاں تو آپ ﷺ نے فرمایا ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(نسائی، ص 504، حدیث: 3101)

والدین کی کثرت سے زیارت کرنا والدین کو دیکھنا عبادت ہے ان میں سے پہلی یہ ہے کہ اپنے والدین کے چہرے کو محبت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ حدیث میں ہے: اللہ پاک کے آخری نبیﷺ نے فرمایا: جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حجّ مبرور ( یعنی مقبول حج ) کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا: اگرچہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے؟فرمایا:ہاں ! اللہ پاک سب سے بڑا اور اطیب ( یعنی سب سے زیادہ پاک ) ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

والدین کے ساتھ احسان کرنا ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدر توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرور کائنات ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسول اللہ! کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کے حقوق احسن طریقے سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


والدین سے حسن سلوک کو اسلام نے اپنی اساسی تعلیم قرار دیا ہے۔ اور ان کے ساتھ مطلوبہ سلوک بیان کرنے کے لئے احسان کی جامع اصطلاح استعمال کی جس کے معانی کمال درجہ کا حسن سلوک ہے۔والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔

ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) حضور نبی اکرم ﷺ نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث: 5972)

(3) حدیث نبوی ﷺ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے تیسری مرتبہ پوچھا: اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

(5) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے)۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

اللہ پاک ہم سب كو والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی ﷺ


اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔یعنی مخلوق خدا میں حق والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے،والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے۔

احادیث مبارکہ:

(1) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی (ذلیل ہوا) یہ بات آپ ﷺ سن نے تین دفعہ فرمائی۔ لوگوں نے پوچھا اے رسول اللہ کون ذلیل ہوا؟ فرمایا: وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک یا دونوں کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) حدیث نبوی ﷺ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد؟ فرمایا: تیری ماں۔ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے تیسری مرتبہ پوچھا، اس کے بعد؟ تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر فرمایا: پھر تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

(3) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

(4) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہیکہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا۔ میں نے عرض کیا پھر کونسا ؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں۔اس نے پھر کون ؟ فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)


والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں بچپن میں انہوں نے ہی ان کی دیکھ بھال اور پرورش کی ہے حقوق الله کے بعد حقوق العباد میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے الله پاک نے اپنے حق کے بعد جس حق کا ذکر کیا ہے وہ والدین کا حق ہے جیسا کہ الله رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کیا گیا ہے۔

والدین کے 5 حقوق:

1۔حضرت ابو امامہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ والدین کا اپنی اولاد پر کتنا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دونوں تیری جنت بھی ہیں اور دوزح بھی یعنی ان کی خدمت کر کے جنت حاصل کر لو یا ان کی نافرمانی کرکے دوزخ کے مستحق ہو جاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

2۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور رب تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

3۔ایک شخص نے آقا ﷺ سے سوال کیا کہ اے الله کے رسول لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں، اس نے پھر پوچھا کون فرمایا تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

4۔حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ الله تعالیٰ کو کون سا عمل محبوب ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بر وقت نماز ادا کرنا میں نے عرض کیا پھر کیا ارشاد فرمایا ارشاد فرمایا والدین سے نیکی کرنا میں نے عرض کیا پھر کون سا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا الله کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

5۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آقا ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک غبار آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو یعنی ذلیل و رسوا ہو! عرض کیا یا رسول الله ﷺ وہ کون ہے حضور ﷺ نے فرمایا جس نے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

والدین ہمارے لئے سرمایہ ہیں ان کی خدمت ہمارے اوپر الله کی عبادت کے بعد فرض ہے افسوس کہ ہم نے الله کے احکامات کو مسترد کر دیا اور آج ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں وجہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ والدین کی خدمت سے دوری۔

الله پاک ہمیں اپنی والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ