والدین سے حسن سلوک کو اسلام نے اپنی اساسی تعلیم قرار دیا ہے۔ اور ان کے ساتھ مطلوبہ سلوک بیان کرنے کے لئے احسان کی جامع اصطلاح استعمال کی جس کے معانی کمال درجہ کا حسن سلوک ہے۔والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔

ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) حضور نبی اکرم ﷺ نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث: 5972)

(3) حدیث نبوی ﷺ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے تیسری مرتبہ پوچھا: اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

(5) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے)۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

اللہ پاک ہم سب كو والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی ﷺ