اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور
فرمانبرداری کو اللہ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔ قرآن
کریم کی تعلیم جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ
اولاً عبادت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکم بھی اللہ تعالیٰ ہی کاماننا ہے یہ ایمان کی
پہلی شرط ہے۔
اسلام میں والدین کے حقوق اسلام نے والدین کے کتنے
مراتب وحقوق رکھے ہیں یہ بات معاشرے میں کسی سے مخفی نہیں اور اولاد پر جو حقوق ان
کے ہیں وہ بھی واضح طور پربیان کر دیئے ہیں۔ اگر ہم قرآن واحادیث کا مطالعہ کریں
تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن
میں کتنے پیارے انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے
اورانسان کواس کا پابند بنایا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم جہاں الله تعالیٰ کی عبادت
کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ اولاً عبادت اللہ تعالیٰ کی ہے اور حکم بھی
اللہ تعالیٰ ہی کاماننا ہے یہ ایمان کی پہلی شرط ہے۔ یہ ہدایت ہر نبی اور پیغمبر
کی بنیادی اور اولین دعوت حق رہی ہے۔ اس کے بعد قرآن میں پانچ جگہ اللہ تعالیٰ کے
حکم کے بعد ماں باپ کے حکم کی تاکید آئی ہے کہ انسان والدین کی اطاعت اور فرماں
برداری کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کوپہنچ
جائیں جیسے کہ ارشاد ربانی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا
تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا
یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ
اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک
یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا
اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک والدین کے ساتھ حسن سلوک
کا بار بار تذکرہ آیا ہے والدین کا بڑا مقام ہے اور یہ مقام الله تعالیٰ نے خود طے
کر دیا ہے والدین ہی حسن سلوک و آداب و احترام کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ لہٰذا
جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت ضروری ہے۔ وہاں والدین کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اس
میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک
شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکار دو عالم ﷺ
نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور
خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالوگے اور اس کے برعکس اگر ان کی
نافرمانی اور ایذاء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر
تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہو گا۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )
والدین کے ساتھ بھلائی اور ان کی خدمت اپنی طاقت
بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اور بھلائی کریں۔ان کی کسی بات پر اف یا بشت یا ہونہہ نہ
کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی
کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے
ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے
باعث تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے
پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی
خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس
حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا
کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل
ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بد مذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے
ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔ (تفسیر خازن،
1/66)
والدین کے ساتھ عاجزی و انکساری والدین پر رحم و
ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی و انکساری کیساتھ جھک کر رہو۔ بعض حضرات کا کہنا
ہے کہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتی ہے اور ہر طرح سے
انکی حفاظت کرتی ہے، اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں تو
اولاد ہر دم انکی حفاظت کرے، ان کے سامنے نہایت عاجزی و انکساری کیساتھ رہے۔ ان کے
ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کریں ان کے سامنے نیچا بن کر رہیں اور ان کی آواز سے
اپنی آواز پست رکھیں۔
فوت شدہ والدین کی قبروں کی زیارت (والدین کے حقوق
میں سے یہ بھی ہے کہ) ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبرکے لئے جانا، وہاں یس شریف پڑھنا
ایسی ( یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہنچانا، راہ (
یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ ( یعنی سلام و ایصال ثواب
کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاوی رضویہ، 24/392)
والدین کے لئے دعائے خیر۔ ان کے لیے ہمیشہ غائبانہ
طور پر دعا کرتے رہیں۔ دل و زبان سے ان کے حقوق کا اعتراف کریں۔ ان سے دعائیں
زیادہ سے زیادہ لینی چاہیے۔ اس کے علاوہ والدین کے بہت سارے حقوق ہیں جن کو پورا
کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ان کے دوستوں کی عزت کریں۔ان کی وجہ سے قائم رشتوں کو جوڑیں
اور صلہ رحمی کریں۔ان کو گالی دینے برا بھلا کہنے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور جھڑکنے سے
بچنا چاہئے۔ان کو گالی دلانے کا سبب بننے سے، بچنا چاہئے۔
ہمارے ذمہ والدین کے بہت زیادہ حقوق ہیں اس کو ادا
کرنے کے نتیجہ میں کل ہمارے بچے بھی ہمارے حقوق کی رعایت کریں گے۔ ہم کو ہر روز
شام کو تھوڑا وقت والدین کو دینا چاہیے ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے،
نرمی سے بات کرنی چاہیے۔ مغرب کی طرح سال میں کوئی ایک دن منانے کی بجائے اللہ کی
خوشنودی کے لیے اس دن کوہر روز منانا چاہیے۔ والدین کے احسانات کا بدلہ ساری زندگی
لگے رہو، نہیں چکا سکتے۔
اللہ پاک سب کے والدین کا سایہ ان کے سروں پر سلامت
رکھے اور جن کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں انہیں صبر عطا کرے۔ آمین ثم آمین یا
رب العالمین