والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان سے سبکدوش (بری الذمہ) ہونا ممکن نہیں ہےمعاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں جو محض اس کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہی نہیں بنتے بلکہ اس کی پرورش اور تربیت کا بھی سامان کرتے ہیں دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ایسی ہے جو اپنی راحت اولاد کی راحت پر قربان کر دیتی ہے ان کی شفقت اولاد کے لیے رحمت الٰہی کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو انہیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے انسانیت کا وجود اللہ پاک کے بعد والدین ہی کا مرہون منت ہے اس لیے اللہ پاک نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے بعد والدین کا حق ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! ماں باپ کا اولادپر کیا حق ہے؟ فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں یعنی جو لوگ ان کو راضی رکھیں گے جنت پائیں گے اور جو ان کو ناراض رکھیں گے دوزخ کے مستحق ہوں گے۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

اللہ پاک نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور خصوصاً ان کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے یقیناً والدین کا بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے سخت بڑھاپے میں بسا اوقات بستر ہی پر بول وبراز یعنی گندگی کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے مگر یاد رکھیے! ایسے حالات میں بھی والدین کی خدمت لازمی ہے بچپن میں ماں بھی تو آخر بچے کی گندگی برداشت کرتی ہی ہے بڑھاپے اور بیماریوں کے سبب والدین کے اندر خواہ کتنا ہی چڑچڑاپن آجائے خوب بڑبڑائیں بلاوجہ لڑیں خواہ کتنا ہی جھگڑیں بے شک پریشان کریں مگر صبر صبر اور صبر ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا ہے ان سے بدتمیزی کرنا ان کو جھاڑنا وغیرہ درکنار ان کے آگے اف تک نہیں کرنا ہے ورنہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے اور دونوں جہان کی تباہی مقدر بن سکتی ہے کہ والدین کا دل دکھانے والا اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتا ہے اور آخرت کے عذاب کا بھی حقدار ہوتا ہے۔ (سمندری گنبد، ص16تا17)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

والدین کا احترام دنیا وآخرت دونوں جہان میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے ۔

والدین کے چند حقوق پیش خدمت ہیں:

والدین کی خدمت کیا کرو اور ان سے اف تک نہ کرو ۔والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو ۔

ہرگز ہرگز اپنے کسی قول وفعل سے والدین کو تکلیف نہ دیں اپنی ہر بات اور کام سے والدین کی تعظیم وتکریم کرے اور ہمیشہ ان کی عزت واحترام کا خیال رکھے ۔ہر جائز کام میں والدین کا حکم مانے ۔اگر والدین کو کوئی ضرورت ہو تو جان و مال سے ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرے ۔والدین کا انتقال ہو جائے تو ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہیں اور فاتحہ وغیرہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں ۔والدین کے ذمہ جو قرض ہو اس کو ادا کریں جن کاموں کی وہ وصیت کر گے ہوں ان کو پورا کریں ۔والدین کی قبروں کی زیارت کے لیے بھی جایا کریں۔