سب رشتوں میں افضل والدین کا مقام ہے اور شریعت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا سختی سے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کے بعد والدین سے اچھا سلوک کرنے کا فرمایا، چنانچہ قرآن پاک میں ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

والدین کے حقوق بے شمار ہیں جن میں سے 5 مندرجہ ذیل یہ ہیں:

1۔ جس شخص نے صبح اس حال میں کی کہ اس کے ماں باپ اس سے راضی تھے تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے اور جس نے شام بھی اسی طرح کی تو اس کے لئے بھی اس کی مثل ہے اور اگر ایک راضی ہو تو ایک دروازہ کھلے گا، اگر چہ وہ دونوں ظلم کریں اور یہ بات آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمائی۔ (شعب الايمان، 6/206، حدیث: 7916)

2۔ بے شک جنت کی خوشبو 500 سال کی مسافت سے سو نگھی جاسکتی ہے مگر ماں باپ کا نافرمان اور قطع رحمی کرنے والا اس کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/187، حديث: 5662)

3۔ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ بھلائی کرو پھر حسب مراتب دیگر رشتہ داروں کے ساتھ۔ (ابوداود، 4/433، حدیث: 5139)

4۔ حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بار گاہ رسالت میں حاضر تھے کہ قبیلہ بنو سلمہ کے ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: يا رسول الله! کیا مجھ پر میرے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں کچھ حق باقی ہے کہ جس کو میں ان کی وفات کے بعد ادا کروں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ! ان کے لئے دعا کرو، ان کی مغفرت چاہو، ان کے وعدوں کو پورا کرو، ان کے دوستوں کی عزت کرو اور صلہ رحمی کرو کیونکہ والدین کے سبب ہی صلہ رحمی کا سلسلہ ہے۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

5۔ بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ بندہ اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ پاک ہمارے والدین کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ آمین ثم آمین