اسلام کی تعلیمات کو جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے حقوق کا پتہ ملتا ہے، ایک تو حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد،خدا کو ایک ماننا تنہا اس کی عبادت کرنا، نماز پڑھنا۔روزہ رکھنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں، والدین کے ساتھ حسن وسلوک ااولاد کے ساتھ رحم وکرم،یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العبادہیں۔

خدائے پاک کی عبادت کریں اس کے ساتھ بڑاحق یہ ہے کہ پروردگارعالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب والدین کو اف تک کہنے سے منع فرمادیا۔

خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حدیث پاک میں بھی والدین کے حقوق کے بارے ارشاد فرمایا گیا ہے چنانچہ:

1)مشہور صحابئ رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے سرکار علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

(3)اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ !اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

انسان اس دنیا میں اپنے وجود کیلئے ذات باری تعالی کے بعد سب سے زیادہ محتاج والدین کا ہے کوئی بھی بچہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو گوشت و پوست کا ایک ننھا سا وجود ہوتا ہے جس میں نہ بولنے کی طاقت ہوتی ہے، نہ چلنے پھرنے کی سکت، اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کھاپی سکے، ایسے وقت میں ماں کا وجود اسکے لئے ایک بڑی نعمت ہوتی ہے، وہ ہر لمحے اسکی نگہبانی کرتی ہے اسے دودھ پلاتی اور اسکی پرورش و نگہداشت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔باپ کی شفقت اسے زمانے کے سرد و غم سے بچاتی ہے اس کی محبت کی چھاوں اسے ہر سختی، تکلیف اور رنج سے دور کردیتی ہے، ان دونوں کی پرورش کے نتیجے میں جب وہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اسے اس مقام تک پہنچانے والے اللہ تعالی کے بعد اسکے والدین ہیں۔

ماں باپ کے احسان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ ان میں سے چند اہم حقوق یہ ہیں:

1۔ طاعت و فرمانبرداری: اگر والدین کسی ایسے کام کا حکم نہیں دےرہے ہیں جس میں اللہ تعالی کی معصیت ہے یا کسی بندے پر ظلم اور اسکی حق تلفی ہےتو انکی اطاعت واجب ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ 21، لقمٰن: 15)ترجمہ: اگر وہ تم پردباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت کی تکمیل والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی والد کی نافرمانی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

2۔ تعظیم و توقیر: قول و فعل کے ذریعہ والدین کی توقیر انکا واجبی حق ہے حتی کہ انکے سامنے اف کر دینے میں انکی بے حرمتی اور انکے ساتھ بدسلوکی ہے۔

اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما۔

3۔ خدمت: مالی اور بدنی دونوں ذریعہ حتی الامکان انکی مدد کرنا اور انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ میرے باپ میرا سارا مال لے لیتے ہیں میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کاہے تمہاری سب سے پاک روزی تمہاری اپنے ہاتھ کی کمائی ہے اور تمہاری اولاد کا مال تمہاری کمائی میں داخل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

4۔ دعا: والدین جب اس دنیا سے جاچکے ہوں بلکہ اگر وہ بقید حیات ہوں تو بھی اولاد کی دعا کے سخت محتاج ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔