اللہ تبارک و تعالی انسان کے وجود کا سبب حقیقی ہے پر سبب ظاہری والدین ہیں۔ اسکے ساتھ والدین اولاد کی پرورش کے لیے بےشمار تکالیف و مشکلات جھیلتے ہیں ۔ایک طرف ماں پیٹ میں رکھنے اور دودھ پلانے میں تکالیف اٹھاتی ہے تو دوسری طرف باپ اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے طلب معاش میں کوشاں رہتا ہے۔ اسی لئے والدین کے حقوق سے انسان کبھی بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔قرآن و احادیث میں بھی جگہ جگہ والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے 05 حقوق پیش خدمت ہیں۔

1۔ حسن سلوک: قرآن کریم فرقان حمید میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اس سے والدین کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اولاد کو چاہیے کہ انکا ادب و احترام کرے،انکے ہر جائز حکم کی تعمیل کرے،انکی نافرمانی سے بچے، خدمت کرے،ان پر خرچ کرنے میں بقدر استطاعت کمی نہ کرے۔

2۔ ادب و تعظیم: رب تعالی فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! جب والدین کو اف کہنے سے منع کر دیا گیا تو دل آزاری کا گناہ کتنا ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے: سب گناہوں کی سزا رب تعالیٰ قیامت کیلئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کہ اس کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔ لہذا کبھی کوئی ایسا کلمہ کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالیں جس سے انکا دل دکھے یا یہ سمجھا جائے کہ انکی طرف سے اسکی طبیعت پر کچھ بوجھ ہے۔ ہمیشہ ادب کیساتھ ان سے کلام کریں۔ان سے نظریں ملا کر بات نہ کریں اور نہ ہی اونچی آواز میں بات کریں۔ ماں باپ جب کھڑے ہوں تو ان کے لیے تعظیما کھڑے ہو جائیں۔

3۔ زیارت کرنا: والدین کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اسکے لیے ہر نظر کے بدلے حج مبرور (یعنی مقبول حج) کا ثواب لکھتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کی اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے۔فرمایا ہاں اللہ سب سے بڑا آور اطیب ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

انکی زیارت کرتا رہے اور انکے وصال کے بعد ہر جمعہ انکی قبر پر حاضر ہو کر تلاوت قرآن کرے اورایصال ثواب کرے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جو شخص روز جمعہ اپنے والدین یا ایک کی زیارت قبر کرے بخش دیا جائے۔ (المعجم الاوسط،6/175، حدیث: 6114)

4۔ والدین کے دوستوں کیساتھ حسن سلوک: حدیث مبارکہ میں ہے: باپ کیساتھ نیکوکاری سے یہ ہے کہ تو اسکے دوستوں سے نیک برتاؤ کرے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 54) یعنی انکی خوشی، غمی میں شریک ہونا، ضرورت پڑنے پر انکی مدد کرنا۔جب کبھی گھر میں کوئی اچھی چیز بنے انکو بھیجنا۔کیونکہ جو والدین کے دل کے قریب ہوتے ہیں انکو خوش کرنا والدین کے دل میں راحت پہنچانا ہے اس لئے ہمیشہ ان کا خیال رکھے۔

5۔ دعا کرنا: والدین کیلئے دعا کرنے کا خود رب تعالی نے حکم دیا ہے فرماتا ہے: وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

اولاد کو چاہیے کہ والدین کیلئے روزانہ دعا کرے۔کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے: آدمی جب ماں باپ کیلئے دعا کرنا چھوڈ دیتا ہے تو اسکا رزق قطع ہو جاتا ہے۔ (کنز العمال، 16/201، حدیث: 44548)

والدین اگر حیات ہوں تو صحت و تندرستی،ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرے اور اگر وصال کر گئے ہوں تو قبر میں راحت، قیامت کی پریشانیوں سے نجات،بے حساب بخشش، جنت میں داخلے کی دعا کرے۔ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: ماں باپ کیساتھ حسن سلوک سے یہ ہے کہ اولاد انکے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (کنز العمال، 16/200، حدیث:45441)

علمائے کرام نے والدین کیلئے دعا کرنے کو ان کا شکر ادا کرنا قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: جس نے پنج گانہ نمازوں کے بعد والدین کیلئے دعا کی تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔ پس ہمیں چاہیے کہ والدین کیلئے دعائیں کرتے رہیں۔

یاد رکھیں! اگر والدین کے حقوق میں کوئی کمی ہوئی ہو تو جب تک کہ تلافی ممکن ہو تلافی کرنا ضروری ہے۔لہذا اگر والدین کی حق تلفی کی ہو یا دل آزاری کی ہو تو ان سے معافی مانگنی بھی ضروری ہے۔

والدین کیساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تعلیم جس قدر اسلام نے دی ہے ویسی پوری دنیا کے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ باہر کے ممالک اولڈ ہاوس سے بھرے پڑیں ہیں۔لیکن آج کا ایک مسلم طبقہ بھی دین سے دوری کی بنا پر والدین کیساتھ ناروا سلوک کرتا ہے۔خاص طور پر جب وہ بزرگ ہوتے ہیں۔ ایسی اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب ہم بچپن میں کمزور تھے تب انہوں نے ہمیں سنبھالا اور ہماری پرورش کی ہم پر خرچ کیا اب انکو ہماری ضرورت ہے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا فرض نبھائیں، کیونکہ والدین کی ساری امیدیں اولاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے عقوق والدین سے بچائے۔