قرآن کریم کی آیت طیبہ میں توحید کے بعد جن کے حقوق
کا ذکر کیا گیا ہے وہ والدین ہیں، حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپ ﷺ
کی بارگاہ میں حاضر ہوا عرض کی: اے اللہ کے رسول میرے احسان کا زیادہ حقدار کون ہے؟
فرمایا تیری ماں اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، اس نے عرض کی: پھر کون؟
فرمایا: تیری ماں، پھر عرض کی: اس کے بعد؟ فرمایا: تیرا باپ۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)
اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ تمام لوگوں سے زیادہ
کسی آدمی کے احسان کے زیادہ حقدار اسکے والدین ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے تین دفعہ
فرمایا کہ ذلیل و رسوا ہو اس کی خاک ناک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلود ہو۔ اس کی
ناک خاک آلود ہو۔پوچھا گیا ایسا کون بد بخت ہے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ جو اپنے والدین
میں سے ایک یا دنوں کو بڑھاپے میں پائے تو ان کی
خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)
حضرت اسما بنت ابوبکر کی والدہ مشرکہ تھی وہ اپنی
بیٹی کو ملنے آئی تو حضرت اسما نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میری والدہ آئی ہے حالانکہ وہ
اسلام سے اعراض کرنے والی ہے کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں تو حضور نے فرمایا کہ تو
اس کے ساتھ صلہ رحمی کر۔
علمائے کرام فرماتے ہیں: والدین کے بیٹے پر دس حقوق
ہیں انہیں کھانا کھلانا خدمت کرنا جب وہ بلائیں تو ان کو جواب دینا چلنے میں ان سے
پیچھے چلنا ان کے لیے دعائے مغفرت کرناان
کی پسند کو ترجیح دینا نرمی سے گفتگو کرنا حکم ماننالباس پہنانا ان کی وفات کے بعد
ان کو ایصال ثواب دینا۔
حضرت عبدالله بن عمر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آدمی
کا اپنے والدین کو گالی گلوچ کرنا کبیرہ گناہوں سے ہے تو صحابہ نے عرض کی کیا کوئی
آدمی اپنے والدین کا گالی کرتا تو فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی نکالتا ہے تو
وہ اس کے باپ کو گالی دےگا وہ کسی کی ماں کو برا بھلا کہےگا تو وہ اس کی ماں کو
برا بھلا کہے گا۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)
اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین