فخر ایوب (ضیاء العلوم جامعہ شمسیہ رضویہ تحصیل سلانوالی ضلع سرگودھا، پاکستان)
اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر کفار کے اعمال کو
ضائع اور بے وقعت قرار دیا ہے کفار کے اچھے اعمال انہیں کوئی نفع نہیں دیں گے کیونکہ
ایمان کے بغیر کوئی نیکی قابل قبول نہیں جس طرح نماز کے لیے وضو شرط جواز ہے ایسے
ہی اعمال کے لیے ایمان شرط قبول ہے کفار جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں انہیں گمان
ہوتا ہے کہ ان کے اعمال ان کو آخرت میں نفع پہنچائیں گے لیکن جب وہ مر جاتے ہیں
تو معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے آئیے قرآن کریم سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی
نے کفار کی خوش فہمی کی کس انداز سے تردید فرمائی ہے ۔
سورۃ النور میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ
یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا
وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ
الْحِسَابِ
ترجمہ کنز العرفان:اور کافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان
میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ
جب وہ اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا اور وہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا
تو اللہ اس کا اسے پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کر لینے والا ہے۔ (سورۃ
النور آیت نمبر 39)
اللہ تبارک و
تعالی نے اس آیت میں کفار کے اعمال کو مثال سے بیان فرما کر یہ واضح کر دیا ہے کہ
کافر آخرت میں شدید خسارے میں ہوں گے اور دنیا میں انہیں طرح طرح کی ظلمتوں کا
سامنا ہوگا اسی طرح سورۃ النور میں ہی
اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:
اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ
مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ
اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ
نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ
ترجمہ کنز العرفان: یا جیسے کسی گہرے سمندر میں تاریکیاں
ہوں جس کو اوپر سے موج نے ڈھانپ لیا ہو اس موج پر ایک اور موج ہو پھر اس موج پر
بادل ہو اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ایک کے اوپر دوسرا اندھیرا جب کوئی اپنا ہاتھ
نکالے تو اسے اپنا ہاتھ بھی دکھائی دیتا معلوم نہ ہو اور جس کے لیے اللہ نور نہیں
بناتا اس کے لیے کوئی نور نہیں ۔ (سورۃ النور، آیت نمبر: 40)
اس سے پہلے والی آیت میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے کفار کے اعمال کو
مثال سے واضح فرمایا ہے اور اس آیت میں بھی
کفار کے اعمال کو واضح فرمایا کہ ان کے اعمال برباد ہیں دوسری مثال میں تاریکیوں
سے مراد کفار کے اعمال ہیں سمندر کی گہرائیوں سے مراد کفار کے قلوب ہیں اور موج
بالائے موج سے مراد وہ جہالت شکوک اور اندھیرے ہیں جو کفار کے دلوں پر چھائے ہوئے
ہیں بادلوں سے مراد ان کے دلوں کا زنگ ہے اور وہ مہر ہے جو ان کے دلوں پر لگا دی
گئی ہے حضرت ابن عباس اور دیگر محدثین نے بیان کیا ہے کہ جس طرح جو شخص سمندر کے
گہرے اندھیرے میں ہو اس کو اپنا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا اسی طرح کافر اپنے دل سے
نور ایمان کا ادراک نہیں کر سکتا۔
ایک اور مقام
پر اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے
مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ
كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ
مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ
ترجمہ کنز العرفان: اپنے رب کا انکار کرنے والوں
کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں
سے کسی شے پر قادر نہ رہیں گے یہی دور کی گمراہی ہے۔ (سورۃ ابراہیم آیت نمبر 18)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں وہی نیک اعمال
فائدہ دیں گے جو ایمان لانے کے بعد کیے ہوں گے جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ
تعالی عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس مومن
کو دنیا میں کوئی نیکی دی جاتی ہے تو اللہ تبارک و تعالی اس پر ظلم نہیں کرے گا
اور اسے آخرت میں بھی جزا دی جائے گی رہا کافر تو اس نے اگر دنیا میں کوئی نیکی کی
ہوگی تو اس کی جزا اسے دنیا میں دے دی جائے گی اور جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس
کے پاس کوئی ایسی نیکی نہیں ہوگی جس کی اسے جزا دی جا سکے (صحیح مسلم کتاب صفۃ القیامۃ
والجنۃ والنار باب جزاءالمومن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ صفحہ نمبر 1508 جلد نمبر
1 رقم الحدیث 2808)
سورۃ ھود میں
اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا
نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(15)اُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا
صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(16) ( سورۃ ہود آیت نمبر 15 16)
ترجمہ کنز العرفان: جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو تو
ہم دنیا میں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہیں دیا
جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کچھ نہیں ہوگا سوائے آگ کے دنیا میں جو
کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہو گیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔ امام ضحاک رحمۃ
اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (تفسیر
قرطبی صفحہ نمبر 14 جزء نمبر 9)