نعمان عطّاری (درجۂ سادسہ،جامعۃُ المدینہ مدینہ فیضانِ
مدینہ، نواب شاہ،سندھ،پاکستان)
حضرت آدم علیہ السّلام کے دنیا سے
وصالِ ظاہری فرمانے کے بعد اللہ پاک نے اپنے اُولُو الْعَزم رسولوں میں سے ایک
رسول حضرت نوح علیہ السّلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ آپ لوگوں تک دعوت اِلَی
اللہ کا فریضہ انجام دیں۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السّلام کو بہت سے اوصافِ
حمیدہ اور عظیم الشان نعمتیں عطا فرمائیں۔ آپ علیہ
السّلام اللہ پاک کے سب سے پہلے رسول ہیں۔(مسلم، ص103، حدیث:475) اور آپ
آدمِ ثانی کے لقب سے بھی مشہور ہیں کیونکہ طوفانِ نوح میں فقط آپ علیہ السّلام کی
قوم کے کچھ لوگ باقی رہ گئے تھے جو کشتی میں سوار تھے اور انہی سے نوعِ انسان کا
سلسلہ شروع ہوا تھا۔ آپ صائمُ الدھر (یعنی عید الفطر و
عید الاضحیٰ کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے) تھے، (سیرت الانبیاء، ص161 ملخصاً) آپ علیہ السّلام کا نام
یشکریا عبدالغفّار (صراط الجنان، 3/347) اور آپ کا مبارک لقب ”نوح“ ہے۔ یہ لقب آپ کا اس لئے رکھا گیا
کیونکہ آپ اللہ پاک کے خوف کے سبب اس کی بارگاہ میں کثرت کے ساتھ گریہ وزاری کیا
کرتے تھے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السّلام کا قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔آیئے حضرت نوح علیہ السّلام کے 5 قراٰنی اوصاف پڑھتے ہیں
:
(1)دعوتِ دین پر استقامت:آپ علیہ السّلام 950 سال سے زائد اپنی قوم میں تشریف فرما رہے۔اور آپ اتنے
طویل عرصے تک اپنی قوم کو استقامت کے ساتھ دین کی دعوت دیتے رہے، اس دوران آپ نے
سخت آزمائشوں اور تکالیف کا سامنا بھی کیا۔ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا
ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ
فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ-فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ
وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنز العرفان: اور بیشک ہم نے نوح کو اس
کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر اس قوم کو
طوفان نے پکڑ لیا اور وہ ظالم تھے۔ (پ20، العنکبوت:
14)آپ علیہ السّلام کا یہ وصف قراٰنِ پاک کی اس آیت سے روز ِ روشن کی طرح
عیاں ہے۔
(2)شکر گزار بندہ:اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد
فرماتا ہے: ﴿ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍؕ-اِنَّهٗ كَانَ
عَبْدًا شَكُوْرًا(۳)﴾ترجَمۂ کنز الایمان: اے ان کی اولاد
جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا ہے بے شک وہ بڑا شکر گزار
بندہ تھا۔ (پ15،بنیٓ اسرآءِیل: 3)
(3)نبوت و کتاب:اللہ پاک نے نبوت وکتاب
آپ کی اولاد میں رکھی یعنی آپ علیہ
السّلام کے بعد دنیا میں جتنے نبی مبعوث ہوئے وہ سب آپ کی اولاد میں سے تھے اور
تمام آسمانی کتابیں بھی آپ علیہ السّلام کی اولاد میں مشہور ہستیوں کو عطا ہوئیں۔
قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا
وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : اور بے شک ہم
نے ابراہیم اورنوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی۔ (پ27،الحدید: 26)
(4)ذکرِ جمیل:آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ کے بعد
والوں (انبیا و رُسل و اُمم) میں آپ علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔ اللہ
پاک فرماتا ہے: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ٘ۖ(۷۸)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : اور ہم نے پچھلوں میں اس
کی تعریف باقی رکھی۔ (پ23،الصّٰفّٰت:78)
(5)کامل الایمان بندے:قراٰنِ کریم میں ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک وہ
ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔(پ23،الصّٰفّٰت:81)
محترم قارئین! ہمیں بھی چاہئے کہ
انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان کی
مبارک صفات و عادات کو اپنائیں تاکہ ہماری روح سے انبیائے کرام کی محبت جھلکتی نظر
آئے۔