نماز ہمارے دین کے پانچ ستونوں میں سے دوسرا ستون ہے۔ جسے دن میں مسلمانوں کو پانچ مرتبہ ادا کرنا فرض ہے۔ پانچ نمازیں یہ ہیں:(1)  فجر، (2) ظہر،(3) عصر،(4) مغرب،(5) عشاء ۔ میں اس مضمون میں نماز ظہر کے بارے میں پانچ فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔

(1) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وراگر جانتے کہ دوپہری کی نمازمیں کیاثواب ہے تو اس کی طر ف دوڑکر آتے ۔( مرآۃ المناجیح،1/395،حدیث:628)

(2) روایت ہے زید ابن ثابت سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نمازظہردوپہری میں پڑھتے تھے اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پہ کوئی نماز اس سے زیادہ دشوار نہ تھی تب یہ آیت اتری کہ ساری نمازوں پرخصوصًادرمیانی نماز پرپابندی کروفرمایا اس سے پہلے دونمازیں ہیں اوراس کے بعد بھی دونمازیں۔( مرآۃ المناجیح،1/398،حدیث:637)

(3) روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب گرمی تیز ہو نمازٹھنڈی کرو۔ اوربخاری کی ایک روایت میں حضرت ابوسعید سے ہے کہ ظہرٹھنڈی کرو کیونکہ گرمی کی تیزی دوزخ کی بھڑک سے ہے ۔(مرآۃ المناجیح،1/379،حدیث:590)

(4) روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہرپڑھتے توگرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پرسجدہ کرتے تھے۔( مرآۃ المناجیح،1/379،حدیث:589)

ان فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پڑھ کر اللہ کرے ہمیں نماز ظہر کی اہمیت کا احساس پیدا ہو اور اس کو باجماعت پہلی صف میں تکبیر اولی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


 (1)حضرت سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سرور ، دو جہاں کے تاجور ، سلطان بحروبر صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نصف النہار کے بعد نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : یارسول اللہ! میں دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس گھڑی میں نماز پڑھنا پسند فرماتے ہیں؟ تو ارشاد فرمایا: اس گھڑی میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ پاک اپنی مخلوق پر نظر رحمت فرماتا ہے اور یہ وہی نماز ہے جسے حضرت آدم و نوح و ابرہیم و موسی و عیسیٰ علیہم السلام پابندی سے ادا کیا کرتے تھے ۔( الترغیب والترہیب کتاب النوافل فی الصلاۃ قبل الظھر و بعدھار ، 1/225،حدیث: 5 )

(2) حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک ، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: ظہر سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے اداکی جاتی ہیں، ان کے لئے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں اصافہ ہے کہ حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سید المبلغین، رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمارے ہاں رونق افروز ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں پابندی سے ادا کیا کرتے اور فرماتے کہ جب زوال شمس ہوتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور نماز ظہر کی ادائیگی تک ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور میں پسند کرتا ہوں اس گھڑی میں میری طرف سے کوئی خیر اٹھائی جائے۔( سنن ابی داؤد، کتاب التطوع، باب الاربع قبل الظھر،2/35، حدیث: 1270 )

(3) حضرت سیدنا قابوس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد محترم رضی اللہ عنہ نے مجھے امّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے یہ پوچھنے کیلئے بھیجا کہ اللہ پاک کے محبوب، دانائے ، منزہ عن العیوب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کس نماز کو پابندی کے ساتھ ادا کرنا پسند فرمایا کرتے تھے؟تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا فرمایا کرتے اور ان میں طویل قیام فرمایا کرتے اور ان رکعتوں کے رکوع و سجود نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ادا فرماتے ۔ اور حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دن کی نفل نمازوں میں ظہر کی چار رکعتوں کے علاوہ کوئی نماز رات کی نماز کے برابر نہیں اور دن میں ادا کی جانے والی نفل نمازوں پر ان رکعتوں کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے باجماعت نماز کی فضیلت تنہا پڑھی جانے والی نماز پر ہے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب اقامتہ الصلواۃ والسنتہ فیھا ، باب فی الا ربع الرکعات قبل الظھر،2/39، حدیث: 1156)


نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔ قرآن و احادیث میں نماز کی جابجا تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وعید فرمائی ۔ چند آیتیں اور احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔کہ مسلمان اپنے رب اور اور پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنیں اور اس کی توفیق سے اس پر عمل کریں۔

کچھ آیتیں ملاحظہ ہو۔

چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے :وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔(پ 1،بقرہ:43)

وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ ۔(پ 16،طٰہٰ:14)

وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں ۔(پ 1،بقرہ : 45)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! نمازِ پنجگانہ مسلمانوں کے لئے ایک اہم ترین فریضہ ہے۔ اسلامی عبادات میں سب سے افضل عبادت نماز ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز کے بے شمار فضائل اور فوائد بیان ہوئے ہیں ۔جن میں سے نماز ظہر کے بارے میں 5 فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کیے جاتے ہیں ۔

(1) فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جو شخص ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کرے، اللہ پاک اس کو آگ پر حرام فرمادیگا۔(سنن نسائی ،حدیث: 1813)

(2) فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:ظہر سے پہلے چار رکعتیں جن کے درمیان سلام نہ پھیرا جائے ،ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔(سنن أبي داود ،حدیث:1270)

(3) فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:جس نے ظہر کی پہلی چار رکعتیں پڑھیں ، گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔(المعجم الأوسط،حدیث:6332)

(4) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ڈھلنے کے بعد نماز ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے اور فرماتے: یہ ایسی ساعت ہے کی آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں، لہذا میں محبوب رکھتا ہوں کہ اس میں میرا کوئی عمل صالح بلند کیا جائے۔ (جامع الترمذي،حدیث:488)

(5) حدیث پاک میں ہےکوئی بندہ ایسا نہیں جو ظہر سے قبل چار رکعتیں پڑھے پھر کبھی جہنم کی آگ اس کے چہرے کو جھلسا دے۔ (کنزالعمال،حدیث:19382)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت امت کو جن چیزوں کی وصیت فرمائی ان میں سے سب سے زیادہ تاکید نماز کی فرمائی، بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ صحیح کے مطابق آخری الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان مبارک پر بار بار آتے تھے وہ یہی تھے :الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اﷲَ فِيْمَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ۔(سنن أبي داود،حدیث: 5156)

اللہ پاک ہمیں پانچوں وقت کی نماز با جماعت پڑھنےکی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم 


حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزند یعنی بیٹے کی جان محفوظ رہنے اور دنبہ قربانی کرنے کی شکریہ میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تویہ نمازِ ظہر ہو گئی۔(شرح معانی الآثار، 1/226، حدیث: 1014 ملخصاً)

ظہر کا ایک معنی ہے: ” ظھیرة “ (یعنی دوپہر)، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے ،اس لیے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الآثارللطحاوی، 3/34،31 ملخصاً)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ: معراج کے بعد اولاً یہی ظہر کی نماز ظاہر ہوئی اور سب سے پہلے یہی پڑھی گئی۔ نیز یہ دوپہر میں ادا کی جاتی ہے لہذا اسے ظہر کہا جاتا ہے۔(مرأةالمناجیح، 1، باب المواقیت ، شرح حدیث: 534 ملخصاً)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر کا وقت جب ہے کہ سورج ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے جب تک کہ عصر نہ آئے۔(مشکوٰةالمصابیح، 1، حدیث:534)

ایک حدیثِ پاک میں سردی و گرمی میں نمازِظہر کو پڑھنے کے بہتر وقت کا ذکر ہےکہ روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب گرمی ہوتی تو نماز ٹھنڈی کر کے یعنی دیر سے پڑھتے اور جب سردی ہوتی تو جلدی پڑھتے۔(مشکوٰالمصابیح، 1، حدیث :571)

ظہر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مختلف سورتیں پڑھے جانے کا ذکر ملتا ہے لیکن مقدارکے اعتبار سے ایک حدیثِ پاک میں ہے کہ: جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھتے اور اس میں”وَالَّیلِ إِذَا یَغشٰی“ جیسی سورت پڑھتے تھے۔(ابو داؤد، 1، حدیث :806)

امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اللہ پاک اسےجہنم کی آگ پر حرام کر دے گا۔(ترمذی، 1، حدیث:427)

ایک حدیثِ پاک میں فرمایا کہ : اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے میں کیا ثواب ہے تو اس کےلیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔(بخاری، حدیث :654)

اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم


روایت ہے حضرت زید بن ثابت سے اور عائشہ صدیقہ سے فرماتے ہیں کہ بیچ والی نماز ظہر  ہے مالک نے زید سے اور ترمذی نے ان دونوں سے تعلیقا روایت کی حدیث: 586

روایت ہے زید بن ثابت سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر دوپہرمیں پڑھتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ پر کوئی نماز اس سے زیادہ دشوارنہ تھی تب یہ آیت اتری کہ ساری نمازوں پر خصوصاً درمیانی نماز پر پابندی کرو فرمایا اس سے پہلے دونمازیں ہیں اور اس کے بعد بھی دونمازیں۔ (احمد وابوداؤد ، حدیث: 587 )(حوالہ مراۃ المناجیح ،ص: 385 تا386)

احمد وابوداود و ترمزی و نسائی وابن ماجہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے راوی کہ فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم جو شخص ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کرے اللہ پاک اس کو آگ پر حرام فرمائے گا ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا حدیث : 10

ابوداؤد وابن ماجہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں جن کے درمیان میں سلام نہ پھیرا جائے ان کےلئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں حدیث : 11

احمد وترمذی عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ڈھلنے کے بعد نماز ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے اور فرماتے یہ ایسی ساعت ہے کہ اس میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں لہذا میں محبوب رکھتا ہوں کے اس میں میرا کوئی عمل صالح بلند کیا جائے حدیث : 12(بہار شریعت ص: 660)


فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ دورد شریف پڑھا اللہ پاک اس پر دس رحمت بھیجتا ہے۔

(1) ام المؤمنین حضرت سیدتنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرکارِ والا تبار، ہم بے کسوں کے مدد گار شفیع روز شمار دو عالم کے مالک و مختار نور مجشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "جو شخص پابندی کے ساتھ ظہر سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعتیں ادا کرے گا اللہ پاک اس پر جہنم کو حرام فرما دے گا" جب کہ ایک روایت میں یہ ہے کہ "اس کے چہرے کو جہنم کی آگ کبھی نہ چھو سکے گی" ۔( مسند احمد، حدیث ام حبیبہ بنت ابی سفیان،10/242، حدیث: 26825 ، بتغیر قلیل)

(2 )حضرت سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے مظلوم سرور معصوم حسن اخلاق کے پیکر بنیوں کے تاجور محبوب رب اکبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم زوال شمس کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا فرمایا کرتے اور ارشاد فرماتے کہ وہ گھڑی ہے جس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں لہذا میں پسند کرتا ہوں کہ اس گھڑی میں میرا کوئی نیک عمل آسمانوں تک پہنچنے۔ (مسندِ احمد، احادیث عبداللہ بن السائب،5/250، حدیث: 15396، بتغیر قلیل)

(3)حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم نور مجشم رسول اکرم شہنشاہ نبی آدم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا کیں گویا کہ اس نے وہ رکعتیں رات کو تہجد میں ادا کیں اور جو چار رکعتیں عشاء کے ادا کرے گا تو یہ شب قدر میں چار رکعتیں ادا کرنے کی مثل ہیں۔ (طبرانی اوسط ،4/386،حدیث: 6332)

(4)امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدنیہ، قرار قلب و سنیہ صاحب معطر پسینہ باعث نزول سکینہ، فیض گنجینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا کرنا صبح میں چار رکعتیں ادا کرنے کی طرح ہے اور اس گھڑی میں ہر چیز اللہ پاک کی تسبیح بیان کرتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:ترجمہ کنزالایمان: اس کی پرچھائیاں داہنے اور بائیں جھکتی ہیں اﷲ کو سجدہ کرتی اور وہ اس کے حضور ذلیل ہیں۔(سنن ترمذی، کتاب التقدیر، 5/88، حدیث:3139)

(5) حضرت سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار کے بعد نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھڑی میں نماز پڑھنا پسند فرماتے ہیں؟ تو ارشاد فرمایا:اس گھڑی میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ اپنی مخلوق پر نظر رحمت فرماتا ہے اور یہ وہی نماز ہے جسے حضرت سیدنا آدم و نوح و ابراہیم و موسی و عیسیٰ علیہم السلام پابندی سے ادا کیا کرتے تھے۔(الترغیب والترہیب، کتاب النوافل،الترغیب فی الصلوۃ قبل الظھر و بعدھا،1/225،حدیث:5) 


حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ ہم ایک منزل پر آقا علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ حضرت بلال نے اذان کہی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا بلال ٹھہرو پھر انہوں نے اذان دینے کا ارادہ فرمایا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا بلال ٹھہرو وہ پھر اذان دینے لگے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا بلال ٹھہرو حتیٰ کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے لہذا جب گرمی ہو تو نماز ٹھنڈی کرکے پڑھو۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ہمیں ظہر کی نماز زوال کے فوراً بعد پڑھائی پھر فرمایا ! گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے لہذا اس نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔

امام احمد و ترمذی ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے راوی، کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’نماز کے لئے اوّل و آخر ہے، اوّل وقت ظہر کا اس وقت ہے کہ آفتاب ڈھل جائے اور آخر اس وقت کہ عصرکاوقت آجائے۔(جامع الترمذي ، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في مواقیت الصلاۃ،1/202، حدیث : 151 )

بُخاری و مُسلِم ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں صلی اﷲ علیہ وسلم: ’’ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے۔ دوزخ نے اپنے رب کے پاس شکایت کی کہ میرے بعض اجزا بعض کو کھائے لیتے ہیں اسے دو مرتبہ سانس کی اجازت ہوئی ایک جاڑے میں ایک گرمی میں ۔