حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزند یعنی بیٹے کی جان محفوظ رہنے اور دنبہ قربانی کرنے کی شکریہ میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تویہ نمازِ ظہر ہو گئی۔(شرح معانی الآثار، 1/226، حدیث: 1014 ملخصاً)

ظہر کا ایک معنی ہے: ” ظھیرة “ (یعنی دوپہر)، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے ،اس لیے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الآثارللطحاوی، 3/34،31 ملخصاً)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ: معراج کے بعد اولاً یہی ظہر کی نماز ظاہر ہوئی اور سب سے پہلے یہی پڑھی گئی۔ نیز یہ دوپہر میں ادا کی جاتی ہے لہذا اسے ظہر کہا جاتا ہے۔(مرأةالمناجیح، 1، باب المواقیت ، شرح حدیث: 534 ملخصاً)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر کا وقت جب ہے کہ سورج ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے جب تک کہ عصر نہ آئے۔(مشکوٰةالمصابیح، 1، حدیث:534)

ایک حدیثِ پاک میں سردی و گرمی میں نمازِظہر کو پڑھنے کے بہتر وقت کا ذکر ہےکہ روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب گرمی ہوتی تو نماز ٹھنڈی کر کے یعنی دیر سے پڑھتے اور جب سردی ہوتی تو جلدی پڑھتے۔(مشکوٰالمصابیح، 1، حدیث :571)

ظہر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مختلف سورتیں پڑھے جانے کا ذکر ملتا ہے لیکن مقدارکے اعتبار سے ایک حدیثِ پاک میں ہے کہ: جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھتے اور اس میں”وَالَّیلِ إِذَا یَغشٰی“ جیسی سورت پڑھتے تھے۔(ابو داؤد، 1، حدیث :806)

امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اللہ پاک اسےجہنم کی آگ پر حرام کر دے گا۔(ترمذی، 1، حدیث:427)

ایک حدیثِ پاک میں فرمایا کہ : اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے میں کیا ثواب ہے تو اس کےلیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔(بخاری، حدیث :654)

اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم