نمازِ ظہر پر 5فرامین مصطفے(1) عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔(صحیح بخاری، صفحہ 1182)دوسری روایت میں ہے کہ آپ گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر باہر جا کر لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔(صحیح مسلم،ص730(1699)(2)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَ أَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَٰهُ عَلَى النَّارِ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرے (یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے گاتو)اللہ پاک نے اسے آگ پر حرام قراردیا ہے،یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی، ص 428 ) اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور اس کے بہت سے شواہد بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔(3) علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔( ترمذی، ص598۔599ملخصاً) (4)حضرت عبداللہ بن سائب بن صیفی مخزومی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر فرماتے:اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارالٰہی میں) میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش) کیاجائے۔(ترمذی،ص 478 وقال:حسن غریب وسندہ صحیح)(5)حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے حزب(یعنی اوراد واذکار) یا اس کے کسی حصے سے سویا رہ جائے تو نماز فجر اور نمازِ ظہر کے درمیان اسے پڑھ لے،اسے اسی طرح ثواب ملے گا جیسا کہ رات کو پڑھا ہے۔(مسلم،ص747)اس حدیث سے امام ابن ِ خزیمہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر تہجد کی نماز رہ جائے تو دن کوحدیث میں مذکورہ وقت میں پڑھ لیں۔(صحیح ابنِ خذیمہ، 2/قبل حدیث:1171)ان تمام روایات وآثار کا خلاصہ یہ ہے کہ ظہر سے پہلے چار رکعتیں(نوافل یاسنتیں)پڑھنا بالکل صحیح ہے۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ راوی،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’جس نے ظہر کے پہلے چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔‘‘(طبرانی)2)اصح یہ ہے کہ سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی (چار) سنتوں کامرتبہ ہے ۔حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشادہے:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ جو انہیں ترک کرے گا ،اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔‘‘( درمختار)نمازِ ظہر کی رکعتیں تعداد:سنتِ مؤکدہ 4۔فرض 4۔سنتِ مؤکدہ 2۔نفل 2۔میزان 12۔ظہر کی نماز کا وقت آفتاب نصف النہار(عرفی ، حقیقی )سے ڈھلتے ہی شروع ہوتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ،2/ 352)ظہر کا وقت امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہُ عنہ کے نزدیک ہر چیز کاسایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل ( ڈبل) نہ ہوجائے وہاں تک رہتاہے۔(فتاویٰ رضویہ،2/210)ضروری و اہم وضاحت :بہت لوگ ناواقفی کی وجہ سے ’’ زوال‘‘ کو وقتِ مکروہ ِ تحریمی کہتے ہیں۔اکثر لوگوں کو یہ کہتے سناگیا ہےکہ دوپہر کو زوال کا وقت ہی وقتِ ممنوع ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوپہر کو جو وقتِ منوع ہے وہ وقت نصفُ النہار ہے ۔ نصفُ النہار کے وقت کوئی نماز جائز نہیں ۔ نہ فرض ، نہ واجب ،نہ سنت ، نہ نفل ، نہ ادا ، نہ قضا بلکہ اس وقت سجدہ ٔ تلاوت و سجدہ ٔ سہو بھی ناجائز ہے ۔