نمازِ ظہر تاریخِ اسلام میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسی علیہ السلام تک سب سے پہلے نماز ظہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پڑھی،اپنے بیٹے کی جان محفوظ رہنے اور دنبہ قربان کرنے کےشکر میں ظہر کے چار فرض ادا کئے، اللہ پاک نے قیامت تک کے لئے یہ رکعتیں جو ایک پیارے کی اداتھیں، ان کو ظہر کے فرضوں کی شکل میں قیامت تک کے لئے باقی رکھا اور ایک روایت کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام نے سب سے پہلے نماز ظہر ادا کی۔ نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت پابندی سے پڑھتا ہے تو اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ حرام فرما دیتا ہے۔(النسائی، 1817)

نبیِ کریمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس کا مفہوم یہ ہے: ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔(مسلم،1390)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ظہر سے پہلے ایک ہی سلام کے ساتھ چار رکعتیں پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔( ابنِ ماجہ،1157)مطلب یہ کہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے،آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جو نیک اعمال ہیں، اس وقت اللہ پاک کے پاس بھی پیش ہوتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ پسند کرتے کہ میں اس وقت نماز پڑھوں، تاکہ میرے اعمال اللہ پاک کے پاس پہنچیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔( طبرانی)سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی چار سنتوں کا مرتبہ ہے،حدیث میں خاص اس کے بارے میں ارشاد ہے: رسولِ اکرمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو انہیں ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(در مختار)

نماز روزہ حج وزکوة کی توفیق عطا ہو اُمّتِ محبوب کو سدا یا ربّ