انسان کے وجود اور کمال میں 2 شخصیات کا کردار ہوتا ہے:(1)والدین:جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ (2)استاد:جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔والدین بولنا سکھاتے ہیں اور استاد کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔

حضرت امام زین العابدین نے استاد کے بہت سارے حقوق بیان کئے ہیں جن میں 6 حقوق درج ذیل ہیں:

(1)اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ:استاد کا احترام کرو۔

(2)وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا:دورانِ کلاس استاد کے سامنے آپس میں بات نہ کرو۔

(3)وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ:اگر کوئی استاد کی برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔

(4)وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ:اپنے استاد کے عیب چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔

(5)اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا:استاد کا احترام کرو چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔

(6)وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ:استاد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام کے حقوق کو یاد رکھنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین