نصر اللہ عطّاری (دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ جی الیون اسلام آباد پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو! استاد
کو ہر زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استاد کی اہمیت اور ان کا مقام و
مرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں مدد
گار ہوتا ہے استاد ہر طالب علم کو ویسے ہی سنوارتا ہے جیسے ایک سُنار دھات کے ٹکڑے
کو سنوارتا ہے۔ اس اعتبار سے استاد کے حقوق بھی ہمارے اوپر لازم ہوتے ہیں۔ آئیے
پانچ حقوق ملاحظہ کیجیے:۔
(1) استاد کا ادب
کرنا: استاد کے حقوق میں سے
پہلا حق یہ ہے کہ ان کا ادب و احترام کیا جائے ، ان کے ساتھ عزت و عاجزی کے ساتھ
پیش آنا جائے ، ان کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دیں ان پر عمل پیرا ہوں کیونکہ
تحصیلِ علم میں جس طرح درس گاہ و کتاب کی اہمیت ہے اسی طرح حصولِ علم میں استاد کا
ادب و احترام شاگرد پر لازم ہے۔ لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ان کا ادب و احترام کریں۔
(2) ان کی باتوں کو
توجہ سے سننا: استاد کے حقوق میں سے یہ
بھی ہے کہ جب وہ پڑھا رہے ہوں تو ان کی گفتگو کو توجہ سے سنا جائے۔ اور اپنی سوچ و
فکر کو ان کی طرف رکھا جائے کیونکہ جو طلبا استاد کی گفتگو کی طرف توجہ رکھتے ہیں
یقیناً وہ علم و دانش کے موتیوں کو چننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو طلباء
استاد کے تجربات اور مطالعے سے استفادہ حاصل کرتے ہیں وہ کئی مرتبہ بہت سی کتابوں
کے مطالعے سے بڑھ کر علمی نکات جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
(3) ان کے کام کرنا :
استاد کے حقوق میں سے یہ
بھی ہے کہ ضرورت کے وقت ان کے کام کرنا ہے۔ اسلام جہاں ہمیں دوسرے مسلمانوں سے خیر
خواہی اور معاونت کا حکم دیتا ہے وہی ہمارے قرب و جوار میں رہنے والے لوگوں میں سے
استاد ہماری توجہات کے بہت زیادہ حقدار ہیں کیونکہ بہت سے استاد کئی مرتبہ مالی
مشکلات یاکسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں ایسے مواقع پر ہم مالی مشکلات کے دوران انکی
مالی معاونت کریں اور بیماری کی صورت میں تیمارداری کریں۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے
کہ جب استاد بیمار ہو جاتے ہیں۔ تو وہ اکیلے ہو جاتے ہیں جہاں ان کو دیگر لوگ نظر
انداز کرتے ہیں وہی ان کے شاگرد بھی ان کا خیال نہیں رکھتے۔ لہذا ہمیں ایسے مواقع
پر ان کی جانی و مالی خدمت کرنی چاہئے۔
(4) دعا کرنا : استاد کے حقوق میں سے یہ بھی
ہے کہ ان کے لیے دعا کی جائے ۔ مسلمانوں کو جہاں پر دوسرے مسلمانوں کے لئےدعا کرنی
چاہئے وہی پراپنی دعاؤں میں اپنے محسنین اور اساتذہ کو بھی یاد کرنا چاہئے ۔اگر
استاد زندہ ہو تو ان کے لیے لمبی عمر و صحت کی دعا کرنی چاہئے اور اگر وہ فوت ہو
گئے ہوں ۔ تو ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے۔
(5)استاد کے لیے اچھے
کلمات کہنا: استاد کے حقوق میں سے یہ
بھی ہے کہ ان کے لیے اچھے کلمات کا انتخاب کرنا چاہئے کیونکہ بہت سارے طلباء اپنے
استاد کے احسانات کو فراموش کر کے ان کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے اور ان کا
استہزا کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہر لحاظ ہے سے قابلِ مذمت ہے ۔ انسان کو اپنے استاد کی
عدمِ موجودگی میں ان کے لیے اچھے کلمات کہنے چاہئے ۔
الله پاک ہمیں علم اور
علم سکھانے والوں کی قدر کرنے اور ان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی
توفیق کر عطا فرمائے۔ اٰمین
مزمل حسین ملتانی(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ اشاءت الاسلام ملتان پاکستان)
جس طرح والدین کے احسانات
کا بدلہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح اساتذہ کے احسانات کا بدلہ بھی ادا
نہیں کیا جا سکتا جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح روحانی والدین
یعنی اساتذہ کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ استاد کے اپنے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں ان میں
سے چند درج ذیل ہیں۔
(1) استاد کی تعظیم :
طالب علم نہ تو اس وقت تک
علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس علم سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک وہ علم ، اہل علم
اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ بِالْحَرْمَةِ وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ
اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص56)
(2) استاد کو اپنا
روحانی باپ سمجھنا: استاد باپ کا روحانی درجہ رکھتا ہے۔ والدین ہمیں اس دنیا میں لاتے ہیں اور
استاد ہمیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ یعنی طریقہ سکھاتے ہیں۔ لہٰذا شاگرد کو چاہئے کہ
وہ اپنے استاد کو اپنے حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے تفسیر کبیر میں ہے کہ: استاد
اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی
آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں اور اساتذہ اسے نار و دوزخ اور آخرت کے مصائب سے بچاتے
ہیں۔ (تفسیر کبیر ،1/401)
(3) اہم معاملات میں
راہنمائی لینا: استاد علم کا سر چشمہ
ہوتا ہے قوموں کی تعمیر و ترقی میں استاد بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے استاد زمانہ
طالب علمی سے گزر کر آچکا ہوتا ہے اس وجہ سے جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو
طالب علم کو چاہئے کہ وہ اپنے استاد سے ایک مرتبہ مشورہ لازمی کرلے۔ استاد آپ کو
کبھی کوئی غلط مشورہ نہیں دے گا استاد آپ کو وہی مشورہ دے گا جس میں آپ کی بہتری
ہو جس میں قوم اور ملت کی بہتری ہو۔
ہماری درس گاہوں میں جو یہ استاد ہوتے ہیں۔
حقیقت میں ہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں۔
یہی رکھتے ہیں شہر علم کی ہر راہ کی روشن
ہمیں منزل پر پہنچا کر یہ کتنا شاد ہوتے ہیں۔
(4)استاد کا حکم
ماننا : طالب علم کے لیے یہ بھی
ضروری ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے استاد کی ہر بات مانے ،استاد کی ہر بات
پر لبیک کہتا ہوا حاضر خدمت ہو جائے ،استاد جس بات سے منع کر دے اس سے رک جانا اور
جس بات کا حکم دیں اس کام کو کرنا بھی طالب علم پر لازم ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ
کا بڑا مشہور قول ہے کہ : جس نے مجھے ایک حرف سکھا یا میں اس کا غلام ہوں چاہیے۔
اب وہ مجھے فروخت کر دے ، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہ
علم ص 29)
جتنی بھی زمانے سے مجھے داد ملی ہے۔
میرا یقین ہے سب باعثِ استاد ملی ہے۔
(5) استاد کے سامنے
سچ بولنا : طالب علم کو چاہیئے کہ
استاد کے سامنے بالخصوص اور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ ہی بولے کہ جھوٹ
بولنے والوں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔ اللہ قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: لَّعْنَتَ اللّٰهِ
عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹوں
پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔ (پ3،اٰل عمرٰن:61) اور استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی
ہے۔ استاد سے چھوٹ بولنے سے علم کی برکات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور جھوٹ بولنے والے
کے بارے میں خود معلم کائنات نے فرمایا کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بو
سے ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ (سنن ترمذی ،حدیث:1972)
استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تو لیں۔
استاد تو ہر دور میں انمول رہا ہے۔
دیگر اساتذہ کا
احترام : جس ادارے میں آپ پڑھ رہے
ہیں اس ادارے کے دیگر اساتذہ کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کر صرف
انہیں اساتذہ کا ادب کریں جن سے آپ نے اسباق پڑھے ہوں۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے
اساتذہ کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے جو اساتذہ دنیا سے
رخصت ہو گئے ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور جو
حیات ہیں انہیں نیکیوں بھری طویل زندگی عطا فرمائے۔ اٰمین
محمد مدنی رضا عطّاری(درجہ خامسہ ما ڈل جامعۃُ
المدینہ اشاعت الاسلام ملتان پاکستان)
معلم ( teacher) کوئی عام منصب
نہیں بلکہ یہ ایسا منصب ہے جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی عطا کیا
گیا جیسا کہ ارشاد ہے : میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (ابن ماجہ ، 1/150، حدیث:
229)
استاد روحانی باپ ہوتا
ہے۔ کیونکہ والد تو اس کی تربیت اور اخلاقی کو درست کرتا ہے۔ لیکن استاد اسے جہالت سے نکال کر نور یعنی علم کی راہ پر گامزن ( چلاتا) کرتا ہے۔
جس طرح والدین کے حقوق بے شمار ہیں اور بندہ ان کو ادا نہیں کر سکتا اس طرح استاد
کے حقوق بھی بہت سارے ہیں۔ ادب علم کی پہلی سیڑھی ہے۔ اگر انسان علم حاصل کرنا
چاہتا ہے تو سب سے پہلے ادب کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ جس کو جو کچھ ملا وہ صرف ادب
کرنے کی وجہ سے ملا اور جس نے جو کچھ کھویا بے ادبی کی وجہ سے کھویا جس طرح شیطان نے
نبی کی تعظیم نہیں کی اور بے ادبی کی تھی تو وہ قیامت تک مردود و ملعون ہوا ۔ ادب میں
سب سے پہلے استادوں کا ادب، کتابوں کا ادب اور جس جگہ وہ علم حاصل کرتا ہے اس کا
ادب آتا ہے ۔ اگر استاد کا ادب و احترام نہ کیا جائے تو بندہ علم کی حقیقی جانشینی
نہیں پاسکتا۔ استاد کا ادب نہ کرنے والے پہلے تو کامیاب نہیں ہوتے اگر کامیابی مل
بھی جائے تو علم کی روحانیت ان کے قریب نہیں آتی کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے: با
ادب بانصیب بے ادب بے نصیب ۔ استاد کے ادب کے ساتھ اس کے حقوق بھی ادا کرنے چاہیے۔
ذیل میں کچھ استاد کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں تاکہ بندہ اس پر عمل کر کے کامیابیوں
کی بلندی سے ہمکنار ہو سکے۔
(1) استاد کی ناشکری
سے بچنا : محسن (احسان کرنے والوں)
کا شکریہ ادا کرنا یہ کامیاب اور نیک لوگوں کی نشانی ہے۔ استاد کی ناشکری کرنا علم
کی روحانیت کو ختم (Finish)
کر دیتی ہے۔
حدیث پاک میں آتا ہے: جو
شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کرتا۔ (سنن ترمذی
)
(2) استاد کے سامنے عاجزی کرنا: اگر شاگرد چاہے کتنا ہی
مرتبہ کیوں نہ پالے لیکن اسے اپنے استاد کے سامنے ادب اور عاجزی و انکساری سے پیش
آنا چاہیے ۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں
کہ حضور نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لئے ادب و احترام سیکھو، جس استاد نے
مجھے علم سکھا یا اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ (معجم الاوسط )
(3) استاد کی نشست گاہ
پر بیٹھے سے بچنا: شاگرد پر استاد کے ادب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ استاد کی نشست گاہ پر نہ
بیٹھے ۔ ردالمحتار میں ہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر برا بر
ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کی جگہ پر نہ بیٹھے اگرچہ وہ موجود
نہ ہو اور انکی بات کو رد نہ کرے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔ (ردالمحتار، 10/522)
استاد اور شاگرد میں واضح فرق ہونا چاہیے کہ استاد کی نشست اونچی ہو اور شاگرد نیچے
ہو۔
(4) استاد کے آگے بات
کرنے اور آگے چلنے سے بچنا : شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاد کے بات کرنے میں اس سے
آگے نہ بڑھے اور اگر استاد اور شاگرد دونوں آپس میں اکھٹے چل رہے ہوں تو شاگرد
استاد سے آگے نہ بڑھے۔
(5) استاد کی گفتگو
کو غور سے سننا : شاگرد کے لئے ضروری ہے کہ
وہ اپنے استاد کی بات غور سے سنے اور اسے کہنے کے مطابق عمل بجا لائے اپنی سوچ اور
عقل کو استاد کے سامنے کمزور جانے اگر شا کرد کامیاب ہونا چاہتا ہے تو وہ استاد کی
باتوں کو بہت غور سے سنے اور اس کے خاص نکات کو نوٹ کرتا جائے ۔ تب وہ کامیابیوں
کی بلندی کو چھوئے گا اور ترقی یافتہ لوگوں میں اس کا شمار ہوگا۔ استاد جب بات کر
رہا ہو اور طالب علم اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہو اور استاد کی بات غور سے نہ سنے تو
یہ بہت بڑی بے ادبی ہے۔
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو ! استاد کا ادب و احترام جتنا بھی کیا جائے اتنا کم ہے۔ ہمارے اسلاف بزرگان
دین اپنے استادوں کے بہت زیادہ ادب کیا کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل کے بارے میں
آتا ہے کہ آپ ادب کی وجہ سے استاد کو انکے نام سے نہیں بلکہ کنیت سے پکارا کرتے
تھے ۔ اور امام اعظم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کو اپنے استاد سے اتنا زیادہ پیار
تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی استاد کے نام پر رکھا۔ آپ کے استاد کا نام شیخ
حماد تھا تو آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی حماد رکھا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں استاد کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بے ادبی جیسی گندی
بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین
کہا جاتا ہےکہ دنیا میں
تقریباً ساڑے سات ارب آبادی ہے۔ اور سب مختلف العقول ہیں (یعنی سب کی الگ الگ سوچ
ہے ) لیکن کوشش سب کی ایک ہی کی طرف ہوتی ہے اور وہ ہے کامیابی، چاہے وہ دین میں
ہو یا دنیا میں۔ اس کو کچھ یوں سمجھئے کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو ایک وقت آتا
ہے وہ سوچتا ہے کہ وہ دنیا میں کچھ کرے تاکہ کامیابی اس کے قدم چومے اعلیٰ سے اعلیٰ
مشکل سے مشکل ہنر بھی اس کو حاصل ہو جائے پھر وہ دن بھی آجاتا ہے کہ وہ اس منزل پر
پہنچ جاتا ہے جس کا اسے بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ وہ اسے پانے کے بعد ایک سکون
محسوس کرتا ہے اور لوگوں کا رخ اس کی طرف ہو جاتا ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے
رہتے ہیں۔
ہر انسان چاہے وہ مفتی ہو،
عالم ہو، ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، منسٹر ہو، حتیٰ کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک
شخصیت کا ہاتھ ہوتا ہے محنت ہوتی ہے شفقت ہوتی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ جن کی دعا شفقت
اور احسان کی وجہ سے مشکل راستوں کو طے کر کے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔
کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ
وہ شخصیت، وہ محسن وہ مہربان کون ہے ؟ تو سنئے وہ شخصیت وہ ہیں کہ جن کو انگلش میں
ٹیچر کہا جاتا ہے استاد وہ پھول ہے جس کی خوشبو سے دل علم و حکمت سے بھر جاتا ہے۔
استاد وہ چراغ ہے جو اندھیری راتوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے ۔
استاد یعنی علم سکھانے
والے کے فضائل قراٰن و حدیث میں بھی موجود ہیں جیسا کہ جامع کی حدیث ہے : سرکار
مدینہ قرار قلب و سینہ فیض گنجینہ صاحب معطر پسینہ باعث نزول سکنہ شہنشاہ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا
فرمائی کہ میرے نائبوں پر اللہ پاک کی رحمت ہو۔ کسی نے عرض کی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نائبین کون
لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: وہ جو میری سنت سے محبت کرتے اور اسے اللہ پاک کے بندوں کو
سکھاتے ہیں۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص66)
اسی طرح سیدنا ابن عباس
رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگوں کو علم دین سکھانے والے کے لئے ہر چیز حتیٰ کہ سمندر
میں مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔(سنن دارمی،1/111)
پیارے اسلامی بھائیو! جس
طرح قراٰن و حدیث نے استاد کے فضائل بیان کیے ہیں اسی طرح ان کے حقوق بھی بیان کیے
ہیں۔ جس طرح والدین کے حقوق اولاد پر پڑوسیوں کے حقوق پڑوسیوں پر رشتے داروں کے
حقوق قرباء پر ہوتے ہیں اسی طرح استاد کے حقوق بھی شاگرد پر ہوتے ہیں:
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ
علیہ بیان فرماتے ہیں : عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے
مزید اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں استاد کے حق کو اپنے ماں باپ سے مقدم
۔استاذ کے حقوق میں سے پانچ حقوق پیش خدمت ہیں:
(1) علم کی برکات سے محروم: استاد صاحب کو اپنی جانب
سے سی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے (جس سے اس کے استاد صاحب کو کسی قسم اذیت پہنچے وہ
علم کی برکات سے محروم رہے گا) شاگر د کو لائق نہیں !
(2) شاگر کو لائق نہیں: جب استاد صاحب کو کسی شے کی حاجت ہو
اسے فوراً پیش کر دے۔ (شاگرد کو یہ لائق نہیں کہ وہ استاد صاحب کی مدد سے باز رہے)
(3) اسلام کی رسی کھول دی !: اپنے استاد صاحب پر کسی
کو ترجیح نہ دے (اگر ایسا کیا تو اس نے اسلام کی رسیوں میں سے ایک رسی کھول دی)(والدین
،زوجین اور اساتذہ کے حقوق،ص76)
(3) پوری توجہ ان کی طرف: استاد صاحب جب موجود ہوں تو پوری توجہ
انہیں کی جانب ہو غیر کی طرف مشغول نہ ہو۔
(4) مسند پر نہ بیٹھے! استاد صاحب کی غیر موجودگی میں بھی
ان کی مسند پر نہ بیٹھے۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ پانچ حقوق بیان کیے
ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی حقوق ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا اہتمام کرنا ضروری
سمجھیں ان کے حقوق ادا کریں جتنا ہوسکے ہم ان کے آگے تواضع ہی کرتے رہیں کبھی بھی
ان کے حقوق پامال نہ کریں کیونکہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے علما فرماتے ہیں: عالم
ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائب حضور
علیہ الصلاۃ ہے و السّلام ہے۔
اگر ان کے حق ادا نہ کرے
تو ایک شاگرد اپنی مراد کو کیسے پالے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام علیہم
الرضوان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
محمد زبیر (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبد اللہ شاہ غازی کراچی،پاکستان)
استاد (یعنی معلم ) ہونا
بہت بڑی بات ہے جیسا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
ہمارے پیار لے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس منصب کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کر کے اسے عزت و
کرامت کا تاج عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا جس نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا تو اللہ
تعالٰی اس کے ثواب کو قیامت تک کیلئے جاری فرما دیتا ہے ۔(کنز العمال، كتاب العلم ،الباب
الاول )
آدمی کا علم حاصل کرنا اس
پر عمل کرنا اور دوسروں کو سکھانا بھی صدقہ ہے (کنز العمال ، کتاب العلم ، الباب
الاول تقسیم، 10/68،حدیث: 28810 ) آج کل تو علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے جس طرح سے
فتنوں کا دور دورہ ہے اور ان فتنوں سے اُس وقت ہی بچا جا سکتا ہے جب ہم علم دین کے
ساتھ منسلک رہیں گے اور اپنے اساتذہ کرام سے فیض حاصل کرتے رہیں گے
استاد کے حقوق کا انکار
جو کہ مسلمانوں بلکہ تمام عقل کے اتفاق کے خلاف ہے اور یہ بات نا شکری سے جدا ہے
کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ احسان کے بدلے کوئی نیکی نہ کی جائے اور یہاں تو اصل ہی
کا انکار ہے۔ اور یہ کہنا کہ استاد نے تو مجھے صرف ابتدا میں پڑھایا تھا اس شخص کے
لئے کچھ مفید نہیں کیونکہ اس بات پر اجماع ہے اور حدیث میں ہے کہ جس نے تھوڑے
احسان کا شکر ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا بھی شکر نہیں کیا ۔ (والترغیب، كتاب
الصدقات ،الحديث:8 ،2/46)
اپنے آپ کو استاذ سے افضل
قرار دیتا ہے اور یہ خلاف مامور ہے۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: علم سیکھو اور علم کیلئے ادب و احترام سیکھو جس نے تجھے علم سکھایا ہے۔ اس
کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔( المعجم الاوسط ،حدیت:6184، 4/342)
علمائے کرام فرماتے ہیں :
استاد کاشا گر د پر یہ بھی حق ہے کہ استاد کے بسترپر نہ بیٹھے اگر چہ استاذ موجود
نہ ہو (رد المحتار، 1/522 ) علمائے کرام فرماتے ہیں شاگرد کو چلنے میں استاد کے
آگے نہیں چلنا چاہیئے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں
استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی
زندگی ہے اور استاد روح کی زندگی کا سبب ہے۔ طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ
عنہ سے روایت کی کہ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں جس نے کسی
آدمی کو قراٰن مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے اور حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا
: انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ
وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔
اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص
78) اہم شمس الدین سماری مقاصد حسنہ میں حدیث کے امیر المومنین نصر بن حجاج رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کرتے ہیں انھوں
نے فرمایا جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں(
المعجم الكبير، 1/112 ،حدیث: 7528)
ہم اللہ پاک کی بارگاہ اقدس
میں دعا کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں اساتذہ
کرام کا ادب واحترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور میں اساتذہ کرام کی بے ادبی سے
محفوظ فرمائے۔ اللہ پاک ہمارے اسا تذہ کرام کو نیکیوں بھری طویل زندگی عطا فرمائے ۔اٰمین
تمام تعریفیں اس مالک و
مولیٰ عزوجل کیلئے جس نے بے کسی معلم کے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو علم عطا فر مایا اور درود و سلام ہو اس نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر جو تمام امت کے معلم بنا کہ کر بھیجے گئے اور آپ کی آل و اصحاب پر استاد
وہ شخصیت ہے جو اپنے شاگرد کو اخلاص کے ساتھ علم کے زیور سے مزین کرتا ہے اور اپنے
سائے میں رکھ کر اسے کامیابی کے زینے پروان چڑھاتا ہے۔
جس طرح ہم پر اللہ پاک نے
اپنے حقوق کو لازم فرمایا اسی طرح بندوں کے آپس کے حقوق کو بھی مقرر فرمایا ۔
انہیں حقوق میں سے استا دو شاگرد کے مقدس رشتے کے حقوق ہیں جن میں سے شاگرد کو
اپنے حقوق ادا کرنا لازم ہے۔ اگر وہ ان حقوق ادا کرے گا تو علم نافع کی دولت سے
مالا مال ہوگا اور دنیا و خرت میں کامیابی حاصل کرے گا ورنہ وہ ناکامی کا سامنا
کرنا پڑے گا استاد کے طالبعلم پر درج ذیل حقوق ہیں ۔
(1) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے
مقدم رکھے۔ عین العلم میں ہے : والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے کیونکہ انکی
نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے
کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذرہ بھر ہے ۔ (الحقوق لطرح العقوق بنام والد ین ، زوجین
اور اساتذہ کے حقوق، ص 91) علامہ مناوی تیسیر شرح جامع الصغیر میں نقل فرماتے ہیں
کہ " جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے ، کیونکہ وہ بدن کا نہیں
روح کا باپ ہے" (التيسير حرف الهمزة ،تحت الحديث : 2580 ، 2/ 454)
حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا
: انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ
وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔
اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص
78) استاد نے کوئی سا بھی علم پڑھایا ہو ، تھوڑا پڑھایا ہو یا زیادہ بہر حال شاگرد
استاد کے ادب کو اپنے اوپر لازم کرلے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55) الخیرات الحسان میں ہے: کروڑوں
حنفیوں کے امام ، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ زندگی بھر اپنے استاد محترم سیدنا امام
حماد علیہ رحمۃ اللہ الجواد کے مکان عظمت نشانی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں لیٹے حالانکہ
آپ رضی اللہ عنہ کے مکان عالی شان اور استاد محترم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے مکان
عظیم الشان کے درمیان تقریبا سات گلیاں پڑتی تھیں ۔ (الخیرات الحسان، ص 82)اللہ
پاک ان کے صدقے ہمیں بھی بے ادب بنائے۔ آمین
(2) اگر کوئی استاد صاحب بیمار ہو جائیں تو انکی عیادت
کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب حاصل کرے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے : جو مسلمان کسی
مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اس کیلئے ستر ہزار فرشتے استغفار
کرتے ہیں اور شام کو جاتے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے
جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (جامع الترمذی ، الحدیث:47 ، ج2 ، ص 290)
(3) طالبعلم کو چاہیے کہ کوئی
بھی اہم فیصلہ کرتے وقت استاد سے مشورہ ضرور کرے ۔ مشورہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ
کی سنت بھی ہے اور آپ علیہ السلام کو مشورہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا جیسا کہ سورہ
آل عمران آیت نمبر 159 میں ہے ترجمہ کنز الایمان : اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
(4) اگر کسی استاد کے ساتھ
کوئی سانحہ پیش آجاے تواسکی غمخواری کرے۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی غمزدہ شخص سے
تعزیت دینی اسکی غمخواری) کرے گا اللہ پاک سے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے
درمیان اسکی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک
اسے جنت کے جوڑوں میں دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔
(المعجم الاوسط للطبرانی، الحديث:929 )
سمجھدار شاگرد کو استاد
کے ان حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے تا کہ شاگرد کو علم نافع عطا ہو اللہ پاک ان
حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
دانیال سہیل عطاری ( درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ عطار اٹک پاکستان)
کوئی کام بغیر سیکھے یا
کوئی علم بغیر پڑھے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم بغیر سیکھے ، بغیر
پڑھے علم حاصل کرلیں گے تو یہ ان لیے ممکن نہیں ، مگر جسے رب العالمین توفیق عطا
فرمائے ۔ بغیر استاذ سے پڑھے علم حاصل کرنا انبیا علیہم السّلام کا خاصہ ہے جیسے
محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا لقب "امی" ہے ، کہ محبوب
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی سے پڑھا نہیں بلکہ تمام علوم مالک
کائنات نے قلبِ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اتار دیئے تھے ۔
استاذ کے شاگرد پر بہت
حقوق سے ہیں اگر ان کو حقوق کو زیر بحث لایا جائے تو ایک ضخیم کتاب کا مجموعہ تیار
ہو جائے گا۔ آج ہم چند حقوق تحریر فرمائیں گے ۔ استاذ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو فقیر
کو بادشاہ اور غریب کو غنی کر دیتا ہے۔ اس لئے جو مقام استاذ کا وہ کسی اور کا
نہیں ۔ وہ کیا حسین مناظر و لمحات تھے۔ جب " معلم " محبوب کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور "طالب علم" اصحاب رسول تھے۔ پڑھانے والے
اور پڑھنے والے دونوں ہی باکمال ہستیاں تھیں۔
(1) استاذ کا مرتبہ والد سے زیادہ ہے کیوں کہ والد کے
ذریعے بچے کا جنم ہوتا ہے جبکہ استاذ کے ذریعے بچے کی تربیت ہوتی ہے اسی تربیت کی
وجہ سے معاشرے میں اس بچے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ استاذ بچے کا روحانی باپ ہوتا
ہے ، اس لیے بچے کو چاہیے جتنی عزت وہ اپنے والد کی کرتا ہے اتنی ہی عزت و تکریم
اپنے استاذ کی کرے۔
(2) طالب علم کو چاہیے کہ جب استاذ اسے کوئی حکم دے تو سب
سے پہلے استاذ کے حکم کو پورا کرے پھر دیگر امور کی طرف متوجہ ہو اگر کئی اساتذہ
نے بیک وقت ایک ہی طالب علم کو کسی کام کا حکم دیا ، تو پھر ان میں جو مرتبہ میں
زیادہ ہے پہلے ان کو فوقیت دے مثلاً ، اگر کوئی سید ہیں تو ان کو ترجیح دیں پھر جو
علم میں زیادہ ہیں۔
(3) استاذ اگر بچے کو ڈانٹ دے تو بچہ اس میں عار محسوس نہ
کرے بلکہ اس کو ناز ہونا چاہیے کہ میری غلطیوں پر مجھے کوئی سیدھی راہ دیکھانے
والا موجود ہے۔ کوئی تو ہے جو میری غلطیوں کو درست کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے استاذ کی
ڈانٹ ڈپٹ کو طالب علم اپنے لیے تمغہ امتیاز سمجھے کہ اسی تمغے کی بدولت میں ( یعنی
طالب علم ) نے غلطی کو درست کرنا سیکھا۔
(4) جیسے استاذ کی تعظیم
کرنا طالب علم پر لازم یوں ہی اساتذہ کی نشستوں کی اور دیگر منسوب اشیاءکی بھی
تعظیم کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً اساتذہ کے بیٹھنے کی جگہ ( نشست ) کا خاص خیال و ادب
کیا جائے، اور اساتذہ کی کتب کی تعظیم کی جائے کہ اسی میں نجات اور کامیابی ہے۔ کوشش
کرنے والا اگر ایک گنا پائے گا، تو ادب و تعظیم کرنے والا 10 گنا لائے گا۔
(4) اساتذہ کے اساتذہ کا بھی ویسا ہی ادب کرنا چاہیے جیسے
اپنے استاذ کا ادب کرتے ہیں۔ کیوں کہ جو فیض آپ نے اپنے استاذ سے حاصل کیا حقیقت
میں وہ فیض آپ کے دادا استاذ کی جانب سے ملنے والا فیض ہے اور یہ لڑی یوں ہی چلتی
رہتی ہے یہاں تک کہ کسی عظیم ہستی سے جا ملتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کے اساتذہ کا ادب
کیا جائے ۔ جیسے ہم اپنے دادا پَڑدادا کا ادب کرتے ہیں ویسے اساتذہ کے اساتذہ کا
ادب کریں۔ استاذ کا ایک حق طالب علم پر یہ بھی ہے کہ جب بھی طالب علم دیکھے کہ
اسکا استاذ اپنے جوتے ہاتھ میں اٹھائے یا پھر کوئی اور سامان اٹھائے جا رہا ہے تو
طالب علم فوراً وہ سامان لے لے تاکہ اساتذہ کو مشقت نہ اٹھانی پڑے اور یوں اساتذہ
کی دعاؤں سے آپکی دنیا و آخرت سنور جائے گی۔
رب العالمین ہمیں اساتذہ
کا حقیقی ادب کرنے کی اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
قراٰن کریم میں ارشاد
باری ہے : ترجمہ :انسان کو اللہ پاک نے وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا۔ (العلق: 5)
انسان کو فرشتوں اور دیگر
مخلوقات سے جو فضیلت حاصل ہے وہ علم کی بنا پر ہے ۔اسی لیے رسول کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم تحصیلِ علم کے لیے لوگوں کو تاکید فرماتے رہے ، اور یہ بات
ظاہر ہے کہ کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لیے کسی نا کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے ،
بغیر استاد کے تحصیلِ علم ناممکن ہے ، اور طالب علم یہ بات پیشِ نظر رکھے کہ
کتابوں سے زیادہ علم استاد کے پاس ہوتا ہے ، جسے وہ مہارت اور وسیع معلومات کے
ذریعے طالب علم کو وقتاً فوقتاً فراہم کرتا رہتا ہے ۔شاگرد جس قدر استاد کے قریب
رہ کر تحصیلِ علم کر سکتا ہے کسی اور ذریعے سے اس کا حصول مشکل ہے ۔
دور حاضر میں اس رشتے کی اہمیت بہت کم دیکھنے کو
ملتی ہے ، جبکہ ہمارےاسلاف رحمہم اللہ (استاد و شاگرد) کا نام سنتے ہی ان کے ذہنوں
میں رشتوں کا تقدس ، تعلقات کی پاکیزگی اور احترام و محبت کے جذبات کی اعلٰی تصویر
بن جاتی تھی ، دورِ حاضر میں اس اہمیت کے کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری
بہت سی اخلاقی و روحانی قدریں کم ہوگئی ہیں جس کی بنا پر ہم اس عظیم رشتے کی اہمیت
سے دور ہو کر بیٹھے ہیں ۔ اسی وجہ سی دور حاضر میں استاد کی عزت بہت کم دیکھنے کو
ملتی ہے ۔ جس طرح شاگرد کے کچھ فرائض ہوتے ہیں اسی طرح استاد کے بھی کچھ حقوق ہوتے
ہیں جن کی ادائیگی ایک طالب علم کے لیے بہت ضروری ہے ۔بغیر اس کے تحصیلِ علم نا
ممکن ہے آئیے ملاحظہ کیجئے ۔
(1)استاد کا احترام کرنا : طالب علم کو چاہیے کے وہ اپنے استاد
کا احترام کریں اور استاد کی دل آزاری سے اجتناب کریں ۔
(2)استاد کی بات کو توجہ کے ساتھ سننا:طالب علم کو چاہیے کے وہ
اپنے استاد کی بات کو بغور توجہ کے ساتھ سنیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے سے اجتناب
کریں ۔
(3)استاد کی درس گاہ کا احترام کرنا: طالب علم کو چاہیے کے وہ
اپنے استاد کی درس گاہ کا احترام کریں اور درس گاہ کی بےادبی سے اجتناب کریں ۔
(4)استاد کی خدمت کرنا: طالب علم کو چاہیےکے وہ اپنے استاد
کی آگے بڑھ کر خدمت کرنے کا شرف حاصل کریں کہ یہ طالب علم کے لیے باعث برکت ہے۔
(5)استاد کے لیے دعائے خیر کرنا:تمام طالب علم کو چاہیے
کہ سبق کے اختتام پر استاد کا شکریہ ادا کریں اور استاد کے لیے دعا مغفرت کرے ۔
لہذا ہر طالب علم کو
چاہیے کے وہ استاد کے قریب رہ کر علم کو سمندر کی لہر کی طرح اپنے سینے میں سما لے
اور استاد کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کی طرف متوجہ کر کے استاد کا دل اپنی طرف مائل
کرے ۔
خالد حسین عطاری مدنی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضانِ ابو عطار کراچی،پاکستان)
مشہور قول ہے کہ ’’جس نے
معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے
محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں استاد کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ خود ہمارے پیارے
اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’اِنما بعثت معلماً‘‘ (ترجمہ) میں بطور معلّم (استاد) مبعوث (بھیجا) کیا
گیا ہوں۔ )۔ (ابن ماجہ، باب فضل العلماء والحث علی العلم حدیث:229)
جس طرح والدین کے احسانات
کا بدل ادا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح استاد کے احسانات کا بھی بدل ادا نہیں ہوسکتا
اور جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہیں اسی طرح روحانی والدین کے حقوق بھی ہم پر
لاگو ہوتے ہیں۔ علم ہو یا کوئی فن استاد کے بغیر اس کا سیکھنا مشکل بلکہ محال ہے
اس لیے داناؤں کا کہنا ہے استاد کے بغیر ہر کام کار (کام)بے بنیاد کی حیثیت رکھتا
ہے فارسی کا مقولہ مشہور ہے کہ ہر کارے را استادے ،یعنی ہر کام کا کوئی نہ کوئی
استاد ہوتا ہے ۔
لیکن فی زمانہ جہاں دیگر
اخلاقی اعتبار سے لوگ پستی کا شکار ہیں وہیں لوگوں کی نظر میں استاد کی عزت و
اہمیت بھی گرتی چلی جا رہی ہے اسی مناسبت سے استاد کے چند حقوق پیش کیے جا رہے ہیں
تاکہ استاد کی عظمت اور ہمارے دلوں میں اجاگر ہو۔
(1) استاد کا ادب کرنا: استاد کے حقوق میں سب سے اہم حق ہے
استاد کا ادب کرنا ۔ حصول علم میں استاد کے ادب بھی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے شاگرد
کا اولین فرض یہ کہ استاد کا ادب و احترام کرے اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جس
سے استاد کوکسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچے نافرمانی ،گستاخی،بے رخی سے شاگرد کو
ہمیشہ بچنا چاہیے۔ جب امام شافعی علیہ الرحمہ، امام مالک علیہ الرحمہ کی خدمت میں
طلب ِعلم کے لیے تشریف لے گئے ،جب کتاب کا ورقہ پلٹنے کی نوبت آتی تو اس قدر
احتیاط کرتے کہ آواز پیدا نہ ہوتی کہیں استاد کو تکلیف نہ پہنچے ۔امام ربیع علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی
پینے کی جرأت نہ ہوئی۔ (آدابِ استاد و شاگرد مفتی فیض احمد اویسی صاحب علیہ
الرحمہ)
علماء فرماتے ہیں جس سے
اس کے استاد کو کسی طرح ایذا پہنچی وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا ۔(فتاویٰ رضویہ،
جلد، 23 ،صفحہ نمبر 639) کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55) آپ دیکھ لیجیے انسان گناہ کی وجہ سے
کافر نہیں ہوا بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے۔ ( راہ علم ،صفحہ
نمبر 29)
جیسا کہ سیدنا امام ربانی
مجدد الف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں : الطریق کلہ ادب یعنی ادب سارے کا سارا
راہ حق ہے ۔( کامیاب طالب علم ، ص 57 )
(2) استاد کے لیے دعا کرنا :2: استاد بہت بڑا محسن ہے
اس کے احسانات کا بدلہ کسی بھی صورت چکایا نہیں جا سکتا پس ایسی شخصیت کے لیے
مکافات(بدلہ،عوض) ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد کے لیے دعا کی
جائے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ
فرماتے ہیں جو شخص تم پر احسان کرے اگر تم اس کی مکافات( بدلہ) کر سکتے ہو تو کرو
ورنہ اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو اسکی مکافات کرلی ۔ یہی وجہ ہے کہ
امام ابو یوسف علیہ الرحمہ ہمیشہ اپنے استاد کے لیے دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے
میں نے جب بھی کوئی فرض یا نفل نماز پڑھی تو اپنے استاد کے لیے دعا ضرور کی اور
فرماتے ہیں کہ اپنے والدین سے پہلے اپنے استاد امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ
علیہ کے لیے ہر نماز کے ساتھ دعا کو واجب جانتا ہوں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں تیس سال سے میری کوئی ایسی رات نہیں گزری جس میں امام شافعی رحمۃ
اللہ علیہ کے لیے دعا نہ کی ہو ۔
اس لیے طالب علم کو چاہیے
کہ اپنے استادوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے اور خلوصِ دل سے اسکی مغفرت اور دیگر
معاملات کے لیے دعا کرے ۔( کامیاب طالب علم: صفحہ نمبر 68/69)
(3) استاد کی عزت کا خیال کرنا :کیونکہ یہی چیز علم میں
پختگی ،فلاح وکامرانی ،حصولِ علم میں مددگار ثابت ہوگی۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: عَنْ عُبَادَةَ بْنِ
الصَّامِتِ ، أَنَّ رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ
مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ
لِعَالِمِنَا "یعنی جو ہمارے
بڑوں کی عزت نہ کرے ،اورہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کو نہ پہچانے
وہ میری امت میں سے نہیں ۔ (الترغیب، حدیث: 169)
(4) وقت کی پابندی اور استاد کی بات غور سے سننا
: شاگرد کا یہ بھی فرض ہے
کہ وہ وقت کا پابند ہو اگر وقت کا پابند نہیں ہوگا تو اس کا تعلیمی نقصان زیادہ
ہوگا اور یہ چیز بھی نامناسب ہے کہ استاد تو وقت پر آئے لیکن طالب علم تاخیر سے
آئے شاگرد کی یہ غفلت و سستی کسی صورت قابل معافی نہیں کہ جو نقصان ہوگا اس کو
پورا نہیں کیا جاسکتا ۔(آدابِ استاد و شاگرد، ص 36)
اسی طرح استاد کی بتائی
گئی ہر بات کو بغور سن کر اس کو ذہن نشین کرکے اس پر عمل کرے اور علم کو دوسروں تک
پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول کے لیے پوری جدوجہد کرے، کیوں کہ
ایک استاد کو حقیقی خوشی تب ملتی ہے جب اس کا شاگرد اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے
(5) استاد پر الزام لگانے سے بچانا :طالب ِعلم کی یہ بھی ذمہ
داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے اجتناب کرے، ناغہ کرنےسے اس کے علم
واستعداد(صلاحیت) میں کمی آئے گی اور غیر اخلاقی حرکات سے بھی اپنے آپ کو بچائے
خواہ تعلیمی ادارے میں ہو یا گھر یا دوستوں میں ہو ورنہ لوگ اس کے استاد ہی کو
موردِ الزام ٹھہرائیں گے، اپنے اساتذہ کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق
میں سے ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا استاد کے حقوق کے
حوالے سے بھی مجموعی خلاصہ پڑھ لیجئے اور عمل کرنے کی نیت کیجیے : عالم کا حق جاہل
اور استاد کاحق شاگرد پریکساں(برابر) ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور
اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غَیبت(عدم موجودگی)میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے
آگے نہ بڑھے۔ ینبغی لرجل ان یراعی حقوق
استاذہ وآدابہ لایضن بشیئ من مالہ۔آدمی کوچاہئے کہ اپنے استاذ کے حقوق وآداب کا لحاظ رکھے
اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی جوکچھ اسے درکار ہو بخوشی خاطر
حاضرکرے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔(مزید اسی
صفحہ کے آخر میں فرمایا:)عالم دین ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استادِ علمِ دین
اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائبِ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ،ہاں
اگر خلافِ شرع بات کا حکم دے تو ہرگز نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد24 ،صفحہ نمبر
412/11 ،رضا فاؤنڈیشن )
استاذ ہی وہ ہستی ہے جو
انسان کو اندھیرے اور اجالے کی پہچان کرواتی٬ صحیح اور غلط کا فرق بتاتی ، زندگی
گزارنے کے طریقہ سکھاتی اور راہ حق کا راہی بناتی ہے تو اتنے بڑے محسِن کو نظر
انداز کرنا کسی عقل مند کو زیب نہیں دیتا، استاذ کی قدروعزّت وتعظیم وتوقیر کے
بغیر طالب علم نہ تو علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس علم سے نفع اٹھا سکتاہے۔ امام
غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں
اگراستاذ علوم آخرت سکھاتا ہے یا علوم دنیا آخرت کی نیت سے سکھاتا ہے تو استاذ کا
حق ماں باپ کے حق سے زیادہ ہے۔ کیونکہ والد اس کے موجودہ وجود اور فانی زندگی کا
ذریعہ ہوتا ہے جبکہ استاذ باقی رہنے والی زندگی کا سبب ہوتا ہے اگر استاذ نہ ہو تو
باپ کے ذریعے حاصل ہونے والی چیز اسے دائمی ہلاکت کی طرف لے جائے۔استاذ کا مقام
ومرتبہ اس حدیث پاک سے ہمیں پتا چلتاہے: قال رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :اِنّمَا اَنَالَکُم بِمَنزِلَةِالوَالِدِ اُعَلِّمُکُم۔ ترجمہ:حضورصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایامیں تمہارےلئے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم
سکھاتا ہوں۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الطہارة ،الحدیث:8،ج1،ص37 )
استاذ کے پانچ حقوق:
(1) استاذ کا شکر ادا کرنا :استاذ کی نا شکری نہ کرنا
کہ یہ ایک خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہےاور علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے
حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:وہ آدمی الله کا شکر بجا نہیں لاتا
جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (سنن ابی داؤد ،الحدیث:4811 ،ج4 ،ص335)
(2) استاذ کا مقابلہ نہ کرنا: طالب علم کبھی بھی استاذ
کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ ناشکری سے زائد ہےکیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے
اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت بھی ہے دیکھئے جو شخص احسان کو
پیش نظر نہیں رکھتا اس نے احسان کی نا شکری کی ہے۔
(3) استاذ کی تعظیم کرنا:طالب علم پر لازم ہے کہ اپنے استاذ کی
تعظیم و توقیرکرے کیونکہ بے ادبی ایک تباہ کن شے ہے کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55)
(4) اپنے آپ کو استاذ سے افضل قرار نہ دینا:عقلمند اور سعادت مند اگر
استاذ سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاذ کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے
سے بھی زیادہ استاذ کے پاؤں کی مٹی اپنے چہرے پر ملتے ہیں۔
معلّم کائنات نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام
سیکھوجس استاد نے تجھے علم سکھایااس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ (معجم
الاوسط ،الحدیث6184 ،4/332)
(5) استاذ کے بستر پر نہ بیٹھنا: طالب علم کو چاہئے کہ وہ
استاذ کے بستر پر نہ بیٹھے اگرچہ استاذ موجود نہ ہو عالم کا حق جاہل پر اور استاذ
کا حق شاگرد پر برابر ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اسکی جگہ پر نہ
بیٹھے اگرچہ وہ موجود نہ ہو اور اسکی بات رد نہ کرے اور چلنے میں اس کے آگے نہ ہو۔
طالب علم کو چاہئے کو
استاذ کے حقوق کی بجاآوری کرتا جائے اور ترقی کی منازل طے کرتاچلا جائے اللہ پاک
ہمیں اپنے اساتذہ اکرام کی ادب وتعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاه خاتم
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مذکورہ تمام مواد مکتبۃ المدینہ
کی کتابوں احیاءالعلوم،راہ علم،والدین ،زوجین اور اساتذہ کے حقوق سے لیا گیا ہے۔
ضیاء الدین (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ،حیدرآباد پاکستان)
"
استاد" فارسی کا لفظ ہے، جس کا ایک معنی ہے ''کسی کام کا آغاز کرنے والا''
یا ''موجد'' کے ہے اب جب نئی چیز بنائی جاتی ہے تو سب سے پہلے جو اہم "important " چیز ہے
کہ اس کی بنیاد "Base"
کو مضبوط بنایا جائے اگر اس کی بنیاد مضبوط ، پکی ہے تب تو کوئی مسئلہ نہیں اگر
بنیاد ہی کمزور "weak"
ہے تو اس کے اوپر ایک ستون "pillar" بھی نہیں بنا سکتے ہیں چہ جائیکہ اس پر کوئی بڑی چیز بنائی
جائی اب یہ لازمی سی بات ہے کہ وہ چیز جاندار " living " ہو یا بے جان " non living" ہو مثلاً کوئی عمارت تو یہ اس بات پر " metter" کرتا ہے
کہ اس کی بنیاد کتنی پکی ہے Strong ہے اب اس بنیاد کو مضبوط بنانے میں استاد کا اہم کردار ہے استاد
کی اس میں کلیدی حیثیت ہے کیونکہ جب نئی چیز بنائی جاتی ہے تو وہ بنانے والے کے
اوپر "dependent" کرتا ہے
کہ وہ اس میں کیا "Material"
لگاتا ہے وہ جتنا اچھا ہوگا تو اتنی دیر تک قائم رہے گی ۔ ایک چھوٹے سے بچے کو جب
مدرسے میںداخل کیا جاتا ہے تو وہ بچہ خالی برتن کی طرح ہوتا ہے ، استاد اس پر
محنت کرے گا کہ اس برتن میں کیا ڈالنا ہے جو '' theory '' نظریہ استاد اس بچے کو عطا کرتا ہے تو وہ بچہ تقریباً اپنی
بقیہ زندگی اس کے مطابق گزارے گا " A great teacher makes a great Student" ایک عظیم
استاد عظیم طالب علم بناتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا
کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ قومیں ان کے استادوں نے بنائے ہیں استادوں نے ان پر
اپنا خون پسینہ بہایا ، ان پر محنت کرکے ان کو اپنے تجربات کے ذریعے ان کی رہنمائی
کی ، کیونکہ دنیا میں واحد شخص استاد ہی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ میرا طالب علم مجھ سے
زیادہ " successful man" کامیاب
انسان بن جائے۔ استاد کی اہمیت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی یہ کہ محبوب کائنات وجہ
تخلیق کائنات حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: انَّما بُعِثْتُ مُعَلِّمًا ،یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ۔(
ابن ماجہ)
بہرحال " anyway " استاد
کی بہت اہمیت و فضیلت ہے ، کیونکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں استاد کا خون
پسینہ شامل ہوتا ہے ، جاہل سے عالم استاد بناتا ہے " Art of living" زندگی جینے کا فن استاد ہی سکھاتا ہے ۔ایک استاد زمین سے
آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔اس اعتبار سے یہاں استاد کے چند حقوق ذکر کئے
جاتے ہیں۔
(1) استاد کا ادب Respect of teacher:ایک طالب علم کیلئے استاد
کا ادب بہت ضروری ہے اور ادب سب سے پہلے آتا ہے کیونکہ " Respect is the first
step of success
" کامیابی کی پہلی سیڑھی ہی ادب ہے ، حسن التنبہ میں ہے کہ جو شاگرد یا مرید
، استاد یا پیر کا زیادہ با ادب اور خدمت کرنے والا ہو وہ اس کے علم کا زیادہ وارث
ہوگا۔(حسن التنبہ،ج 1 ص 384)
(2) استاد کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع نہ کریں
: Let teacher be talked : طالب علم کے
اوپر استاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ استاد کے درمیان کلام میں اپنی بات شروع نہ
کرے ، بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ استاد صاحب بات کررہے ہوتے ہیں تو طالب علم بیچ
میں اپنی بات شروع کرتا ہے تو اس سے ہوسکتا ہے استاد کو رنج ہو ، تو ایک طالب علم
کو ہر اس فعل سے بچنا چاہیئے جو استاد کو ناگوار گزرے ۔
(3) استاد کی غیر موجودگی میں اس کی جگہ پر نہ
بیٹھے " Don't sit on his
sate " طالب علم کے اوپر استاد کا حق ہے کہ وہ
استاد کی غیر موجودگی میں ان کی نشست گاہ کا بھی احترام کرے اور ان کی جگہ پہ نہ
بیٹھیں کیونکہ ایک طالب اس وقت تک علم کی مٹھاس نہیں پاسکتا جب تک وہ استاد کی
جلوت و خلوت میں ان کی دل و جان سے تعظیم نہ کرے ۔
(4) اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ
کرے " Don't stingy with him of
anything
" استادوں کے ساتھ بخل نہ کرے چاہے وہ کسی بھی چیز کا ہو کیونکہ استاد ہی
طالب علم کے روحانی تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے تو ایک طالب علم کو زیب نہیں
دیتا کہ اپنے محسن کے ساتھ اس طرح کا بخل کرے۔
(5) استاد کو شکایت کا موقع نہ دے:" Don't give to the
teacher a chance to complain" ایک طالب علم کے اوپر لازم ہے کہ وہ استاد کے سامنے ایسی
کوئی حرکت نہ کرے جس سے استاد کو شکایت ہو یا وہ حرکت استاد کو پسند نہ ہو ، اسی
طرح استاد کے سامنے اپنی آواز بھی اونچی نہ کریں کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے وہ علم کے
نور سے محروم ہوجائے ۔ تو ایک طالب علم کو چاہیئے کہ وہ استادوں کی تعظیم کرے
کیونکہ انسانی زندگی کی ضمانت فراہم کرنے والا شخص ہے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں کما حقہ استادوں کا ادب و تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس کام
سے بچائے جس سے استاد کی توہین ہو ۔
کاشف امروی (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ دین
گاہ(ڈنگہ)،تحصیل کھاریاں،ضلع گجرات،پاکستان)
واضح رہے کہ شاگرد کے لیے
اپنے استاد کا ادب واحترام، ان کی عظمت کو اپنے دل میں بٹھانا اور ان کے حقوق بجا
لانا لازمی ہے۔ استاد کی بے ادبی، ان کی تحقیر اور ان کے حقوق کو بجا لائے بغیر نہ
تو ان سے صحیح معنوں میں حصولِ علم ممکن ہو گا اور نہ ہی ان سے حاصل کردہ علم میں
برکت ہو گی۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:"إنَمابُعِثتُ مُعَلِّماً" مجھے سکھانے والا (معلم) بنا
کر بھیجا ہے۔ ایک استاد کی اہمیت کو اس بات سے باخوبی جانا جا سکتا ہے کہ ایک
استاد طالب علم کی تربیت بھی کر دیتا ہے اور زندگی میں بہترین انسان بنا دیتا
ہے۔اس کو جینے کے گُر سکھا دیتا ہے۔ اگر استاد مہربان بھی ہوتو کوئی ہُنر بھی سکھا
دیتا ہے۔ استاد معلم و مربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔
پیارے نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّمَا
أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ ترجمہ: میں تمہارے لیے والد کے مرتبے
میں ہو ں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔(سنن ابی داؤد،حدیث:8) اُستاد کے حقوق بجا لانےکے
سلسلے میں جن باتوں کا خاص طور پر اہتمام و التزام کرنا چاہیے ان میں سے پانچ(5)
ضروری باتیں درج ذیل ہیں:
(1)استاد کا ادب و حترام: استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے
شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت،عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔
علم استاد کے ادب سے ہی آتا ہے۔ ایک مقولہ ہے: باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب۔
جو ادب کرتا ہے وہ پا لیتا ہے جو بے ادبی کرتا ہے وہ پایا ہوا بھی کھو دیتا ہے۔
(2)اس کا کہنا مانیں:استاد کی خواہش ہوتی ہے کہ میں جو
پڑھاؤں طالب علم اس کو یاد کرکے مجھے سنائیں لہذا اس کا کہنا مان کر جو وہ تعلیم
دے اس کو یاد کرے اور اس پر عمل کرے۔ (3) استاد
کو الزام آنے سے بچائے:طالب علم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے بچے، ناغہ کرنے
سے علم و استعداد میں کمی آئے گی۔ اور نتیجۃً لوگ اس کے استاد کوموردِالزام
ٹھرائیں گے۔ چنانچہ اپنے استاد کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق میں سے
ہے۔
(4)اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لے: طالب علم کی یہ بھی ذمہ
داری ہے کہ اگر استاد سے سبق سمجھ نہ آئے تو اس سے سوال کر کے پوچھ لے۔ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:فَإِنَّمَا شِفَاءُ العِى السُّؤَالُترجمہ:نہ جاننے کا علاج معلوم کر لینا ہے۔(سنن ابی
داود، حدیث:336)
(5)فضول سوالات نہ کرے: طالب علم کو چاہئے کہ وہ
استاد سے فضول اور وقت ضائع کرنے والے سوالات سے پرہیز کرے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ وہ ہم کو اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنے ان کے حقوق کی پاسداری کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔