کہا جاتا ہےکہ دنیا میں
تقریباً ساڑے سات ارب آبادی ہے۔ اور سب مختلف العقول ہیں (یعنی سب کی الگ الگ سوچ
ہے ) لیکن کوشش سب کی ایک ہی کی طرف ہوتی ہے اور وہ ہے کامیابی، چاہے وہ دین میں
ہو یا دنیا میں۔ اس کو کچھ یوں سمجھئے کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو ایک وقت آتا
ہے وہ سوچتا ہے کہ وہ دنیا میں کچھ کرے تاکہ کامیابی اس کے قدم چومے اعلیٰ سے اعلیٰ
مشکل سے مشکل ہنر بھی اس کو حاصل ہو جائے پھر وہ دن بھی آجاتا ہے کہ وہ اس منزل پر
پہنچ جاتا ہے جس کا اسے بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ وہ اسے پانے کے بعد ایک سکون
محسوس کرتا ہے اور لوگوں کا رخ اس کی طرف ہو جاتا ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے
رہتے ہیں۔
ہر انسان چاہے وہ مفتی ہو،
عالم ہو، ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، منسٹر ہو، حتیٰ کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک
شخصیت کا ہاتھ ہوتا ہے محنت ہوتی ہے شفقت ہوتی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ جن کی دعا شفقت
اور احسان کی وجہ سے مشکل راستوں کو طے کر کے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔
کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ
وہ شخصیت، وہ محسن وہ مہربان کون ہے ؟ تو سنئے وہ شخصیت وہ ہیں کہ جن کو انگلش میں
ٹیچر کہا جاتا ہے استاد وہ پھول ہے جس کی خوشبو سے دل علم و حکمت سے بھر جاتا ہے۔
استاد وہ چراغ ہے جو اندھیری راتوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے ۔
استاد یعنی علم سکھانے
والے کے فضائل قراٰن و حدیث میں بھی موجود ہیں جیسا کہ جامع کی حدیث ہے : سرکار
مدینہ قرار قلب و سینہ فیض گنجینہ صاحب معطر پسینہ باعث نزول سکنہ شہنشاہ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا
فرمائی کہ میرے نائبوں پر اللہ پاک کی رحمت ہو۔ کسی نے عرض کی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نائبین کون
لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: وہ جو میری سنت سے محبت کرتے اور اسے اللہ پاک کے بندوں کو
سکھاتے ہیں۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص66)
اسی طرح سیدنا ابن عباس
رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگوں کو علم دین سکھانے والے کے لئے ہر چیز حتیٰ کہ سمندر
میں مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔(سنن دارمی،1/111)
پیارے اسلامی بھائیو! جس
طرح قراٰن و حدیث نے استاد کے فضائل بیان کیے ہیں اسی طرح ان کے حقوق بھی بیان کیے
ہیں۔ جس طرح والدین کے حقوق اولاد پر پڑوسیوں کے حقوق پڑوسیوں پر رشتے داروں کے
حقوق قرباء پر ہوتے ہیں اسی طرح استاد کے حقوق بھی شاگرد پر ہوتے ہیں:
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ
علیہ بیان فرماتے ہیں : عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے
مزید اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں استاد کے حق کو اپنے ماں باپ سے مقدم
۔استاذ کے حقوق میں سے پانچ حقوق پیش خدمت ہیں:
(1) علم کی برکات سے محروم: استاد صاحب کو اپنی جانب
سے سی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے (جس سے اس کے استاد صاحب کو کسی قسم اذیت پہنچے وہ
علم کی برکات سے محروم رہے گا) شاگر د کو لائق نہیں !
(2) شاگر کو لائق نہیں: جب استاد صاحب کو کسی شے کی حاجت ہو
اسے فوراً پیش کر دے۔ (شاگرد کو یہ لائق نہیں کہ وہ استاد صاحب کی مدد سے باز رہے)
(3) اسلام کی رسی کھول دی !: اپنے استاد صاحب پر کسی
کو ترجیح نہ دے (اگر ایسا کیا تو اس نے اسلام کی رسیوں میں سے ایک رسی کھول دی)(والدین
،زوجین اور اساتذہ کے حقوق،ص76)
(3) پوری توجہ ان کی طرف: استاد صاحب جب موجود ہوں تو پوری توجہ
انہیں کی جانب ہو غیر کی طرف مشغول نہ ہو۔
(4) مسند پر نہ بیٹھے! استاد صاحب کی غیر موجودگی میں بھی
ان کی مسند پر نہ بیٹھے۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ پانچ حقوق بیان کیے
ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی حقوق ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا اہتمام کرنا ضروری
سمجھیں ان کے حقوق ادا کریں جتنا ہوسکے ہم ان کے آگے تواضع ہی کرتے رہیں کبھی بھی
ان کے حقوق پامال نہ کریں کیونکہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے علما فرماتے ہیں: عالم
ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائب حضور
علیہ الصلاۃ ہے و السّلام ہے۔
اگر ان کے حق ادا نہ کرے
تو ایک شاگرد اپنی مراد کو کیسے پالے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام علیہم
الرضوان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین