خالد حسین عطاری مدنی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضانِ ابو عطار کراچی،پاکستان)
مشہور قول ہے کہ ’’جس نے
معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے
محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں استاد کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ خود ہمارے پیارے
اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’اِنما بعثت معلماً‘‘ (ترجمہ) میں بطور معلّم (استاد) مبعوث (بھیجا) کیا
گیا ہوں۔ )۔ (ابن ماجہ، باب فضل العلماء والحث علی العلم حدیث:229)
جس طرح والدین کے احسانات
کا بدل ادا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح استاد کے احسانات کا بھی بدل ادا نہیں ہوسکتا
اور جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہیں اسی طرح روحانی والدین کے حقوق بھی ہم پر
لاگو ہوتے ہیں۔ علم ہو یا کوئی فن استاد کے بغیر اس کا سیکھنا مشکل بلکہ محال ہے
اس لیے داناؤں کا کہنا ہے استاد کے بغیر ہر کام کار (کام)بے بنیاد کی حیثیت رکھتا
ہے فارسی کا مقولہ مشہور ہے کہ ہر کارے را استادے ،یعنی ہر کام کا کوئی نہ کوئی
استاد ہوتا ہے ۔
لیکن فی زمانہ جہاں دیگر
اخلاقی اعتبار سے لوگ پستی کا شکار ہیں وہیں لوگوں کی نظر میں استاد کی عزت و
اہمیت بھی گرتی چلی جا رہی ہے اسی مناسبت سے استاد کے چند حقوق پیش کیے جا رہے ہیں
تاکہ استاد کی عظمت اور ہمارے دلوں میں اجاگر ہو۔
(1) استاد کا ادب کرنا: استاد کے حقوق میں سب سے اہم حق ہے
استاد کا ادب کرنا ۔ حصول علم میں استاد کے ادب بھی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے شاگرد
کا اولین فرض یہ کہ استاد کا ادب و احترام کرے اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جس
سے استاد کوکسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچے نافرمانی ،گستاخی،بے رخی سے شاگرد کو
ہمیشہ بچنا چاہیے۔ جب امام شافعی علیہ الرحمہ، امام مالک علیہ الرحمہ کی خدمت میں
طلب ِعلم کے لیے تشریف لے گئے ،جب کتاب کا ورقہ پلٹنے کی نوبت آتی تو اس قدر
احتیاط کرتے کہ آواز پیدا نہ ہوتی کہیں استاد کو تکلیف نہ پہنچے ۔امام ربیع علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی
پینے کی جرأت نہ ہوئی۔ (آدابِ استاد و شاگرد مفتی فیض احمد اویسی صاحب علیہ
الرحمہ)
علماء فرماتے ہیں جس سے
اس کے استاد کو کسی طرح ایذا پہنچی وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا ۔(فتاویٰ رضویہ،
جلد، 23 ،صفحہ نمبر 639) کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55) آپ دیکھ لیجیے انسان گناہ کی وجہ سے
کافر نہیں ہوا بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے۔ ( راہ علم ،صفحہ
نمبر 29)
جیسا کہ سیدنا امام ربانی
مجدد الف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں : الطریق کلہ ادب یعنی ادب سارے کا سارا
راہ حق ہے ۔( کامیاب طالب علم ، ص 57 )
(2) استاد کے لیے دعا کرنا :2: استاد بہت بڑا محسن ہے
اس کے احسانات کا بدلہ کسی بھی صورت چکایا نہیں جا سکتا پس ایسی شخصیت کے لیے
مکافات(بدلہ،عوض) ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد کے لیے دعا کی
جائے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ
فرماتے ہیں جو شخص تم پر احسان کرے اگر تم اس کی مکافات( بدلہ) کر سکتے ہو تو کرو
ورنہ اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو اسکی مکافات کرلی ۔ یہی وجہ ہے کہ
امام ابو یوسف علیہ الرحمہ ہمیشہ اپنے استاد کے لیے دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے
میں نے جب بھی کوئی فرض یا نفل نماز پڑھی تو اپنے استاد کے لیے دعا ضرور کی اور
فرماتے ہیں کہ اپنے والدین سے پہلے اپنے استاد امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ
علیہ کے لیے ہر نماز کے ساتھ دعا کو واجب جانتا ہوں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں تیس سال سے میری کوئی ایسی رات نہیں گزری جس میں امام شافعی رحمۃ
اللہ علیہ کے لیے دعا نہ کی ہو ۔
اس لیے طالب علم کو چاہیے
کہ اپنے استادوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے اور خلوصِ دل سے اسکی مغفرت اور دیگر
معاملات کے لیے دعا کرے ۔( کامیاب طالب علم: صفحہ نمبر 68/69)
(3) استاد کی عزت کا خیال کرنا :کیونکہ یہی چیز علم میں
پختگی ،فلاح وکامرانی ،حصولِ علم میں مددگار ثابت ہوگی۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: عَنْ عُبَادَةَ بْنِ
الصَّامِتِ ، أَنَّ رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ
مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ
لِعَالِمِنَا "یعنی جو ہمارے
بڑوں کی عزت نہ کرے ،اورہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کو نہ پہچانے
وہ میری امت میں سے نہیں ۔ (الترغیب، حدیث: 169)
(4) وقت کی پابندی اور استاد کی بات غور سے سننا
: شاگرد کا یہ بھی فرض ہے
کہ وہ وقت کا پابند ہو اگر وقت کا پابند نہیں ہوگا تو اس کا تعلیمی نقصان زیادہ
ہوگا اور یہ چیز بھی نامناسب ہے کہ استاد تو وقت پر آئے لیکن طالب علم تاخیر سے
آئے شاگرد کی یہ غفلت و سستی کسی صورت قابل معافی نہیں کہ جو نقصان ہوگا اس کو
پورا نہیں کیا جاسکتا ۔(آدابِ استاد و شاگرد، ص 36)
اسی طرح استاد کی بتائی
گئی ہر بات کو بغور سن کر اس کو ذہن نشین کرکے اس پر عمل کرے اور علم کو دوسروں تک
پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول کے لیے پوری جدوجہد کرے، کیوں کہ
ایک استاد کو حقیقی خوشی تب ملتی ہے جب اس کا شاگرد اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے
(5) استاد پر الزام لگانے سے بچانا :طالب ِعلم کی یہ بھی ذمہ
داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے اجتناب کرے، ناغہ کرنےسے اس کے علم
واستعداد(صلاحیت) میں کمی آئے گی اور غیر اخلاقی حرکات سے بھی اپنے آپ کو بچائے
خواہ تعلیمی ادارے میں ہو یا گھر یا دوستوں میں ہو ورنہ لوگ اس کے استاد ہی کو
موردِ الزام ٹھہرائیں گے، اپنے اساتذہ کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق
میں سے ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا استاد کے حقوق کے
حوالے سے بھی مجموعی خلاصہ پڑھ لیجئے اور عمل کرنے کی نیت کیجیے : عالم کا حق جاہل
اور استاد کاحق شاگرد پریکساں(برابر) ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور
اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غَیبت(عدم موجودگی)میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے
آگے نہ بڑھے۔ ینبغی لرجل ان یراعی حقوق
استاذہ وآدابہ لایضن بشیئ من مالہ۔آدمی کوچاہئے کہ اپنے استاذ کے حقوق وآداب کا لحاظ رکھے
اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی جوکچھ اسے درکار ہو بخوشی خاطر
حاضرکرے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔(مزید اسی
صفحہ کے آخر میں فرمایا:)عالم دین ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استادِ علمِ دین
اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائبِ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ،ہاں
اگر خلافِ شرع بات کا حکم دے تو ہرگز نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد24 ،صفحہ نمبر
412/11 ،رضا فاؤنڈیشن )