دانیال سہیل عطاری ( درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ عطار اٹک پاکستان)
کوئی کام بغیر سیکھے یا
کوئی علم بغیر پڑھے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم بغیر سیکھے ، بغیر
پڑھے علم حاصل کرلیں گے تو یہ ان لیے ممکن نہیں ، مگر جسے رب العالمین توفیق عطا
فرمائے ۔ بغیر استاذ سے پڑھے علم حاصل کرنا انبیا علیہم السّلام کا خاصہ ہے جیسے
محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا لقب "امی" ہے ، کہ محبوب
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی سے پڑھا نہیں بلکہ تمام علوم مالک
کائنات نے قلبِ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اتار دیئے تھے ۔
استاذ کے شاگرد پر بہت
حقوق سے ہیں اگر ان کو حقوق کو زیر بحث لایا جائے تو ایک ضخیم کتاب کا مجموعہ تیار
ہو جائے گا۔ آج ہم چند حقوق تحریر فرمائیں گے ۔ استاذ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو فقیر
کو بادشاہ اور غریب کو غنی کر دیتا ہے۔ اس لئے جو مقام استاذ کا وہ کسی اور کا
نہیں ۔ وہ کیا حسین مناظر و لمحات تھے۔ جب " معلم " محبوب کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور "طالب علم" اصحاب رسول تھے۔ پڑھانے والے
اور پڑھنے والے دونوں ہی باکمال ہستیاں تھیں۔
(1) استاذ کا مرتبہ والد سے زیادہ ہے کیوں کہ والد کے
ذریعے بچے کا جنم ہوتا ہے جبکہ استاذ کے ذریعے بچے کی تربیت ہوتی ہے اسی تربیت کی
وجہ سے معاشرے میں اس بچے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ استاذ بچے کا روحانی باپ ہوتا
ہے ، اس لیے بچے کو چاہیے جتنی عزت وہ اپنے والد کی کرتا ہے اتنی ہی عزت و تکریم
اپنے استاذ کی کرے۔
(2) طالب علم کو چاہیے کہ جب استاذ اسے کوئی حکم دے تو سب
سے پہلے استاذ کے حکم کو پورا کرے پھر دیگر امور کی طرف متوجہ ہو اگر کئی اساتذہ
نے بیک وقت ایک ہی طالب علم کو کسی کام کا حکم دیا ، تو پھر ان میں جو مرتبہ میں
زیادہ ہے پہلے ان کو فوقیت دے مثلاً ، اگر کوئی سید ہیں تو ان کو ترجیح دیں پھر جو
علم میں زیادہ ہیں۔
(3) استاذ اگر بچے کو ڈانٹ دے تو بچہ اس میں عار محسوس نہ
کرے بلکہ اس کو ناز ہونا چاہیے کہ میری غلطیوں پر مجھے کوئی سیدھی راہ دیکھانے
والا موجود ہے۔ کوئی تو ہے جو میری غلطیوں کو درست کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے استاذ کی
ڈانٹ ڈپٹ کو طالب علم اپنے لیے تمغہ امتیاز سمجھے کہ اسی تمغے کی بدولت میں ( یعنی
طالب علم ) نے غلطی کو درست کرنا سیکھا۔
(4) جیسے استاذ کی تعظیم
کرنا طالب علم پر لازم یوں ہی اساتذہ کی نشستوں کی اور دیگر منسوب اشیاءکی بھی
تعظیم کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً اساتذہ کے بیٹھنے کی جگہ ( نشست ) کا خاص خیال و ادب
کیا جائے، اور اساتذہ کی کتب کی تعظیم کی جائے کہ اسی میں نجات اور کامیابی ہے۔ کوشش
کرنے والا اگر ایک گنا پائے گا، تو ادب و تعظیم کرنے والا 10 گنا لائے گا۔
(4) اساتذہ کے اساتذہ کا بھی ویسا ہی ادب کرنا چاہیے جیسے
اپنے استاذ کا ادب کرتے ہیں۔ کیوں کہ جو فیض آپ نے اپنے استاذ سے حاصل کیا حقیقت
میں وہ فیض آپ کے دادا استاذ کی جانب سے ملنے والا فیض ہے اور یہ لڑی یوں ہی چلتی
رہتی ہے یہاں تک کہ کسی عظیم ہستی سے جا ملتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کے اساتذہ کا ادب
کیا جائے ۔ جیسے ہم اپنے دادا پَڑدادا کا ادب کرتے ہیں ویسے اساتذہ کے اساتذہ کا
ادب کریں۔ استاذ کا ایک حق طالب علم پر یہ بھی ہے کہ جب بھی طالب علم دیکھے کہ
اسکا استاذ اپنے جوتے ہاتھ میں اٹھائے یا پھر کوئی اور سامان اٹھائے جا رہا ہے تو
طالب علم فوراً وہ سامان لے لے تاکہ اساتذہ کو مشقت نہ اٹھانی پڑے اور یوں اساتذہ
کی دعاؤں سے آپکی دنیا و آخرت سنور جائے گی۔
رب العالمین ہمیں اساتذہ
کا حقیقی ادب کرنے کی اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین