استاذ ہی وہ ہستی ہے جو
انسان کو اندھیرے اور اجالے کی پہچان کرواتی٬ صحیح اور غلط کا فرق بتاتی ، زندگی
گزارنے کے طریقہ سکھاتی اور راہ حق کا راہی بناتی ہے تو اتنے بڑے محسِن کو نظر
انداز کرنا کسی عقل مند کو زیب نہیں دیتا، استاذ کی قدروعزّت وتعظیم وتوقیر کے
بغیر طالب علم نہ تو علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس علم سے نفع اٹھا سکتاہے۔ امام
غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں
اگراستاذ علوم آخرت سکھاتا ہے یا علوم دنیا آخرت کی نیت سے سکھاتا ہے تو استاذ کا
حق ماں باپ کے حق سے زیادہ ہے۔ کیونکہ والد اس کے موجودہ وجود اور فانی زندگی کا
ذریعہ ہوتا ہے جبکہ استاذ باقی رہنے والی زندگی کا سبب ہوتا ہے اگر استاذ نہ ہو تو
باپ کے ذریعے حاصل ہونے والی چیز اسے دائمی ہلاکت کی طرف لے جائے۔استاذ کا مقام
ومرتبہ اس حدیث پاک سے ہمیں پتا چلتاہے: قال رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :اِنّمَا اَنَالَکُم بِمَنزِلَةِالوَالِدِ اُعَلِّمُکُم۔ ترجمہ:حضورصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایامیں تمہارےلئے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم
سکھاتا ہوں۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الطہارة ،الحدیث:8،ج1،ص37 )
استاذ کے پانچ حقوق:
(1) استاذ کا شکر ادا کرنا :استاذ کی نا شکری نہ کرنا
کہ یہ ایک خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہےاور علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے
حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:وہ آدمی الله کا شکر بجا نہیں لاتا
جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (سنن ابی داؤد ،الحدیث:4811 ،ج4 ،ص335)
(2) استاذ کا مقابلہ نہ کرنا: طالب علم کبھی بھی استاذ
کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ ناشکری سے زائد ہےکیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے
اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت بھی ہے دیکھئے جو شخص احسان کو
پیش نظر نہیں رکھتا اس نے احسان کی نا شکری کی ہے۔
(3) استاذ کی تعظیم کرنا:طالب علم پر لازم ہے کہ اپنے استاذ کی
تعظیم و توقیرکرے کیونکہ بے ادبی ایک تباہ کن شے ہے کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55)
(4) اپنے آپ کو استاذ سے افضل قرار نہ دینا:عقلمند اور سعادت مند اگر
استاذ سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاذ کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے
سے بھی زیادہ استاذ کے پاؤں کی مٹی اپنے چہرے پر ملتے ہیں۔
معلّم کائنات نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام
سیکھوجس استاد نے تجھے علم سکھایااس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ (معجم
الاوسط ،الحدیث6184 ،4/332)
(5) استاذ کے بستر پر نہ بیٹھنا: طالب علم کو چاہئے کہ وہ
استاذ کے بستر پر نہ بیٹھے اگرچہ استاذ موجود نہ ہو عالم کا حق جاہل پر اور استاذ
کا حق شاگرد پر برابر ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اسکی جگہ پر نہ
بیٹھے اگرچہ وہ موجود نہ ہو اور اسکی بات رد نہ کرے اور چلنے میں اس کے آگے نہ ہو۔
طالب علم کو چاہئے کو
استاذ کے حقوق کی بجاآوری کرتا جائے اور ترقی کی منازل طے کرتاچلا جائے اللہ پاک
ہمیں اپنے اساتذہ اکرام کی ادب وتعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاه خاتم
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مذکورہ تمام مواد مکتبۃ المدینہ
کی کتابوں احیاءالعلوم،راہ علم،والدین ،زوجین اور اساتذہ کے حقوق سے لیا گیا ہے۔