اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور مختلف مراتب عطا فرمائے ان میں سے بعض خوش نصیب لوگ وہ بھی ہیں جن کو اللہ نے استاذ بننے کا شرف عطا فرمایا دین اسلام میں استاذ کو اللہ پاک نے بڑا مقام و مرتبہ عطا فرمایا یہاں تک کہ استاذ کو سگے باپ پر فضیلت حاصل ہوئی کیونکہ والد کے ذریعے بدن کی زندگی ہے جب کہ استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے اور شریعت میں استاذ کے حقوق بیان کیے گئے جن کو بجا لانا طلبا پر ضروری ہے آئیے ان میں سے پانچ حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔

(1) استاذ کی ناشکری نہ کریں کہ یہ ایک خوفناک بلا اور تباہ کر دینے والی بیماری ہے اور علم کی برکت کو ختم کر دینے والی ہے ۔حضور علیہ الصلوة والسّلام نے ارشاد فرمایا " وہ آدمی اللہ تعالی کا شکر ادا نہیں کرتا جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ۔( سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب فی شکر المعروف ، الحدیث 4811 ، جلد 4 ، صفحہ 335 )اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: وَ هَلْ نُجٰزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ ترجمہ کنز العرفان : اور ہم کسے سزا دیتے ہیں اُسی کو جو نا شکرا ہے۔( پ 22 ، سبا : 17 )

(2) استاذ کی ابتدائی تعلیم کو حقیر نہ جانیں کہ یہ معاذ اللہ قراٰن مجید اور فقہ کی چھوٹی کتابوں کی توہین کی طرف لے جاتا ہے گویا کہ جس نے انہیں پڑھا اس نے کچھ نہیں پڑھا۔

(3) استاذ کا کبھی بھی مقابلہ نہ کریں کہ یہ ناشکری سے بھی زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلہ کرنے میں شکر کی بجائے اس کی مخالفت بھی ہے اور یہ گویا کہ ایسے ہی ہے جیسے باپ کی نافرمانی کرنا کیونکہ استاذ کو باپ کے برابر شمار کیا گیا ہے ۔اسی لیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا " میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم سکھاتا ہوں " ( سنن ابی داؤد ، کتاب الطہارة ، الحدیث 8 ، جلد 1 ، صفحہ 37 )بلکہ علما فرماتے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے ۔

(4) استاذ کے سامنے غلام کی طرح رہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ " جس نے کسی کو قراٰن مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے ۔( المعجم الکبیر ، حدیث 7528 ، 8/ 112 )مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ " جس نے مجھے ایک حرف سکھایا پس تحقیق اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو بیچ دے چاہے تو آزاد کر دے "

(5) اپنے آپ کو کبھی بھی استاذ سے افضل نہ سمجھے کہ یہ خلاف مامور ہے ۔نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا " علم سیکھو اور علم کے لیے ادب واحترام سیکھو ، جس استاد نے تجھے علم سکھایا اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو "( المعجم الاوسط ،من اسمہ محمد ، حدیث 6184 ، 4/ 342 )

یاد رکھیں عقل مند اور سعادت مند شاگرد اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اسکی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی چہرے پہ ملتے ہیں ۔(ملخص از الحقوق لطرح العقوق للامام احمد رضا)

اللہ پاک ہمیں اساتذہ کرام کے حقوق بجا لانے اور انکا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام نے جس طرح میاں بیوی، والدین، اولاد وغیرہ کے حقوق بیان فرمائے ہیں اسی طرح استاذ کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں۔ جس طرح والدین اپنے بچوں کے ظاہری بدن کی تربیت و پرورش کرتے ہیں اسی طرح ایک دینی استاذ طالب علم کی روحانی اصلاح و پرورش کرتا ہے۔ ہمیں بھی شریعت کے مطابق استاذ کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اس کی تعظیم کرنی چاہئے کیونکہ استاذ کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے۔ چنانچہ

پہلا حق: اپنے آپ کو استاذ سے افضل قرار نہ دینا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو جس استاذ نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عقلمند اور سعادت مند اگر استاذ سے بڑھ بھی جائے تو اسے استاذ کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاذ کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں۔(فتاوی رضویہ، ج24 ،ص424)

دوسرا حق: استاذ کا ادب و احترام کرنا :طالب علم کو چاہئے کہ کبھی استاذ کے آگے نہ چلے، نہ اس کی نشست گاہ پر بیٹھے، نہ تو بغیر اجازت کلام میں ابتدا کرے اور نہ ہی بغیر اجازت استاذ کے سامنے زیادہ کلام کرے، جب وہ پریشان ہو تو کوئی سوال نہ کرے بلکہ وقت کا لحاظ رکھے اور نہ ہی استاذ کے دروازے کو کھٹکھٹائے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ صبر سے کام لے اور استاذ کے باہر آنے کا انتظار کرے الغرض طالب علم کو چاہیے کہ ہر وقت استاذ کی رضا کو پیش نظر رکھے اور اس کی ناراضی سے بچے اور اللہ کی نافرمانی والے کاموں کے علاوہ ہر معاملے میں استاذ کے حکم کی تعمیل کرے ۔(راہ علم، ص30)

تیسرا حق: استاذ کی ناشکری نہ کرنا: استاذ کی ناشکری جو کہ خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے۔(فتاوی رضویہ، ج24 ،ص214)

چوتھا حق: استاذ کے حقوق کا انکار نہ کرنا:اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: استاذ کے حقوق کا انکار جو کہ مسلمانوں بلکہ تمام عقل والوں کے اتفاق کے خلاف ہے، یہ بات ناشکری سے جدا ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ احسان کے بدلے کوئی نیکی نہ کی جائے اور انکار یہ ہے کہ سِرے سے احسان ہی کو نہ مانا جائے اور یہ کہنا کہ استاذ نے تو مجھے صرف ابتدا میں پڑھایا تھا اس شخص کے لئے کچھ مفید نہیں کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے اور حدیث شریف بھی ہے کہ جس نے تھوڑے احسان کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا بھی شکر نہیں کیا۔(فتاوی رضویہ، ج24 ،ص217/218)

پانچواں حق: استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا: علما فرماتے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حقوق پر مقدم رکھنا چاہیے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے۔( فتاوی رضویہ، ج24 ،ص421)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان حقوق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین


مشہور قول ہے کہ ’’جس نے معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں معلّم (استاد) کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ امام الانبیا، خاتم النبیین، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمین، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’اِنما بعثت معلما‘‘ (ترجمہ) میں بہ طور معلّم (استاد) مبعوث کیا گیا ہوں۔ (ابنِ ماجہ) سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’اللہ پاک نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بناکر نہیں، بلکہ معلّم اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں کہ تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں۔‘‘ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے۔حضور نبی کریم کا ارشاد ہے کہ ’’تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ تیرے دنیا میں آنے کا باعث بنا، یعنی والد، دوسرا وہ، جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، یعنی سسر اور تیسرا وہ، جس نے تجھے علم و آگہی سے نوازا، یعنی استاد۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروق سے پوچھا گیا ’’آپ اتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خلیفہ ہیں، کیا اس کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟‘‘ فرمایا! ’’کاش! میں ایک معلّم ہوتا۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا علی مرتضیٰ کا قول ہے کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا، میں اسے استاد کا درجہ دیتا ہوں۔‘‘

استاد کا مرتبہ و مقام: علم کا حقیقی سرچشمہ اللہ رب العزت ہے کہ جس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو علم کی بِنا پر فرشتوں پر برتری دی اور پھر انبیا کے ذریعے انسانوں کو عِلم کے زیور سے آراستہ کیا۔ نبی آخرالزماں جب منصبِ رسالت پر فائز ہوئے، تو اللہ جل شانہ نے اپنے محبوب پر حضرت جبرائیل کے ذریعے جو پہلی وحی نازل فرمائی، وہ پڑھنے ہی سے متعلق تھی۔ فرمایا۔ (ترجمہ) ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے (عالم کو) پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں، جس کا اسے علم نہ تھا۔ (سورۃ العلق)اسلام سے قبل عربوں میں لکھنا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ بعثتِ نبوت کے وقت پورے عرب میں صرف17افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضور نے عِلم کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجّہ فرمائی۔ مدینہ ہجرت فرماتے ہی مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ مسجد کے صحن میں درس و تعلیم کے لیے ایک چبوترے کی تعمیر فرمائی، جو ’’صفّہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دنیائے اسلام کی پہلی درس گاہ قرار پائی، جہاں صحابہ کرام اجمعین نے حضور سے قراٰن و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرکے دنیا کی تاریکی کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور فرمایا۔ اصحابِ صفّہ، دن رات خدمتِ دین اور حصولِ علم میں مصروف رہتے۔اللہ کے نبی بنفسِ نفیس ان اصحاب کو درس و تعلیم دیتے اور ان کی تربیت فرماتے۔ آپ نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ’’میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے، جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا۔‘‘ (بیہقی)

استاد کے چند حقوق آپ بھی پڑھئے:

پہلا حق: استاد کا ادب و احترام:استاد کا پہلا حق ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر۔

دوسرا حق: یہ بھی حق ہے کہ شاگرد کبھی بھی کسی حالت میں بھی استاد کو برا بھلا نہ کہیں اور نہ ہی استاد کی مخالفت کریں نہ غیبت کریں نہ ہی استاد کی پیٹھ پیچھے استاد کی نقلیں اتاریں اور نہ ہی بہتان باندھیں۔

تیسرا حق: اور یہ بھی حق ہے کہ شاگرد ہمیشہ ہر نماز کے بعد اپنے اساتذہ کے لیے دعا کریں اور استاد سے منسوب ہر چیز کا ادب کرے خدا نخواستہ استاد بیمار ہو جائے تو اس کے عیادت کے لیے جائے استاد کی اولاد کا ادب کرے۔

چوتھا حق:یہ بھی حق ہے کہ شاگرد استاد کی اجازت کے بغیر کلاس سے نہ اٹھے، استاد سے بحث،ضد،غصے،یا ناراضگی سے پرہیز کیا جائے، کسی مسئلے پر استاد سے اختلاف رائے بھی ادب و احترام کے دائرے میں کیا جائے۔

پانچواں حق:شاگرد کو یہ چاہیے کہ اپنی حیات میں کسی بھی مقام پر پہنچ جائے اس طرح ہی ادب کرے جس طرح پہلے ادب کرتا تھا۔فرمان امام ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ: میں نے کبھی اپنے ا استاد کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیے حالانکہ ان کے اور میرے گھر میں سات گلیوں کا فاصلہ تھا۔فرمان امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ: ادب و احترام کی وجہ سے میں استاد کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ پلٹتا تھا ۔


پیارے اسلامی بھائیو!جس شخص نے آپ کو ایک لفظ بھی سکھایا، وہ آپ کا معلم (استاذ) ہے ۔لیکن بالخصوص استاد یا معلم کا اطلاق ان لوگوں پر کیا جاتا ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد، معاونت و رہنمائی کرتا ہے ابتدائی اور ثانوی درجے کے مدارس، اسکولوں، کالجوں یا پھر اعلیٰ ثانوی اور سند کے درجے تک کے جامعات وغیرہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ المختصر یہ کہ تمام طرح کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے والوں پر اس لفظ اطلاق ہوتا ہے۔

استاذ وہ نور ہے جس کے ذریعے طالب علم کے عقل سے ظلمت کے پردے اٹھ جاتے ہیں،

استاذ وہ چراغ ہے جس کے ذریعے طالب علم روشنی حاصل کرتے ہیں۔ استاذ وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے طالب علم کامیابی کے اونچائیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ استاذ کا مقام بہت بلند و برتر ہے۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا : انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔ اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص 78)

جس طرح استاذ کا مقام بلند تر بالکل اسی طرح استاذ کے حقوق بھی بہت اہم ہے جن کو ادا کرنا ہم تمام پر لازم ہے۔

استاذ کے5 حروف کی نسبت سے5 حقوق:(1) ادب:استاذ کے حقوق میں سب سے پہلا اور نہایت اہمیت کا حامل حق ادب و احترامِ : عربى مقولہ ہے: الاَدَبُ شَجَرٌ وَالعِلْمُ ثَمَرٌ فَکَیْفَ تَجِدُوْنَ الثَّمَرَ بِدُوْنِ الشَّجَرِ ترجمہ : ادب درخت ہے اور علم پھل ہے، پھر تم بغیر درخت کے پھل کیسے حاصل کرسکتے ہو؟ استاذ کا ادب ہی طالب علم کو کامیابی و کامرانی کی طرف لے جاتا ہے اور استاذ کی بے ادبی سے ذہین و فطین طالب علم بھی نا مرادی کے دہانے پر آجاتا ہے۔

خود سے چل کر یہ طرز سخن نہیں آیا ہے

پاؤں استاذ کے دابیں ہیں تو فن آیا ہے

(2) نا شکری: استاذ کے حقوق میں سے ایک حق ان کا شکر ادا کرنا بھی ہے طالب علم کو ہمیشہ اپنے استاذ کا شکر گزار رہنا چاہیے کیونکہ آپ کے اچھے اور کشادہ مستقبل کے پیچھے بڑا کردار استاذ محترم کا ہی ہوتا ہے استاذ ہی وہ کاریگر ہے جو کوئلے کو چمکتے ہوئے ہیرے میں تبدیل کر دیتا ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللَّهَ ترجمہ: جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا۔(جامع ترمذی: حدیث:1954، سنن ابی داؤد،حدیث:4811)

(3) فوقیت:استاذ کو طالب علم پر بحیثیت استاذ ہمیشہ فوقیت حاصل ہوتی (جبکہ غیر شرعی معاملات میں نہ پڑ جائے) لیکن ہائے افسوس! کہ دورِ حاضر میں اساتذہ کی حق تلفی یوں ہوتے ہوے نظر آتی ہے کہ اگر کوئی طالب علم، علم کے حصول میں استاذ سے آگے بڑھ جائے تو وہ استاذ کو فوقیت دینا بھی کم کر دیتا ہے مثال کے طور جس طالب علم نے ماسٹر کر لیا تو وہ گریجویشن پڑھانے والے اپنے استاذ کو اپنے سے کم تر سمجھنے لگتا ہے اسی طرح دیگر شعبہ جات کو بھی قیاس کر لیں حالانکہ گزشتہ زمانوں میں اس طرح کی مثالیں ہیں کہ طلبا اپنی ہر کامیابی پر اپنے اساتذہ کو یاد اور انہیں فوقیت دیا کرتے تھے۔

(4) حفظ سبق:اساتذہ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ طلبائے کرام اپنے اسباق اور ہر اس عمل کو پورا کریں جس کا استاذ صاحب نے انہیں حکم فرمایا ہے۔کیونکہ اسباق یاد نہ کرنا (home work) مکمل نہ کرنا جہاں طلبائے کرام کے لیے نہایت نقصان دہ فعل ہے وہیں دوسری طرف وہ اساتذہ کی دل آزاری کا بھی سبب ہے۔

(5) استاذ اور معاشی فکر: اساتذہ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر علم کے فروغ میں مصروفِ عمل رہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد معاشی طور پر نہایت پَس ماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تعلیم کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے شعبہ تدریس کا انتخاب اہل، ذہین اور قابل نوجوانوں کی آخری ترجیح ہوتی ہے۔ حالانکہ قوموں کی ترقی و عروج کے حوالے سے علم کا حصول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ علم سے آگاہی اور اس کی ترویج ہی انسانی تہذیب و ترقی کا ذریعہ بن کر عظمتوں اور رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہے ہمیں اساتذہ کرام کو معاشی فکر سے آزاد کرنا چاہیے تاکہ وہ صحیح معنوں علم کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں رہ سکیں۔

یہاں اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی اساتذہ کے حقوق علمائے کرام نے بیان فرمائے ہیں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ بوسیلہ پیارے اور آخری نبی معلم کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اساتذہ کے حقوق کی معرفت اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ کامیابیاں، عزت یہ نام، تم سے ہے

دنیا میں ملا جو بھی مقام، تم سے ہے

جہاں جہاں ہوں برا سبب میں ہوں

جہاں جہاں ہے میرا نام تم سے ہے


استاد ایک عظیم ہستی ہے۔ یہ وہ ذات ہے جو اپنی طویل زندگی کے تجرِبات و مشاہدات اپنے شاگرد کو قلیل عرصے میں عطا کرتا ہے۔انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد اپنے شاگرد کو جوہرِ نایاب بناتا ہے۔ معاشرے میں رہنے کا سلیقہ، لوگوں سے میل جول رکھنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔یہ و دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کے گُر بتاتا ہے۔ ملک و ملّت کا تعلیم یافتہ،باعزت و باوقار شہری بناتا ہے۔الغرض یہ راہبر شاگرد کی اخلاقی،سماجی،معاشرتی،معاشی،ہر لحاظ سے زندگی سنوارتا ہے۔یہ باکمال شخص باپ سے بڑھ کر مہربان و شفیق ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ شاگرد پر استاد کے بے شمار حقوق ہیں۔

”استاد“ کے پانچ حروف کی نسبت سے پانچ حقوق ملاحظہ کیجیے:

(1) روحانی باپ کا درجہ دے :شاگرد پر لازم ہے کہ استاد کی تعظیم والد کی تعظیم سے بڑھ کر کرے۔یہ تعظیم و تکریم دکھاوے کے طور پر(دل میں عزت نہ ہوتے ہوئے استاد کے سامنے نظر جھکا لینا،ہاتھ باندھ لینا،چپل ان سے لے کر خود تھام لینا وغیرہ)نہ کرے۔دل سے عزت کرے۔اور اس دلی تعظیم و توقیر کی جھلک شاگر کے افعال و کردار سے چھلکنی بھی چاہئے۔

(2) مَسندِ استاد کی تعظیم کرے: شاگرد استاد کی مَسند(استاد کے بیٹھنے کی جگہ)پر بیٹھے نہ ٹیک لگائے نہ اس کی طرف پاؤں پھیلائے اور نہ ہی مسند ہٹا کر اس جگہ آرام کرے۔بلکہ حق تو یہ ہے کہ جس کرسی وغیرہ پر استاد صاحب ایک دفعہ تشریف فرما ہوجائیں شاگرد کوشش کرے وہاں نہ بیٹھے۔

(3) استاد کے سامنے اپنی آواز پست رکھے: شاگرد استاد کے سامنے اپنی آواز مدہم و دھیمی رکھے۔ استاد صاحب اگر ڈانٹ دیں تو خاموش رہ کر صبر،صبر اور صبر کرے۔ اپنے اندر برداشت و تحمُّل مزاجی پیدا کرے اور یہ بات ذہن نشین رکھے کہ اس کے نتیجے میں وہ دنیا دار لوگوں کی ناپسندیدہ باتیں سننے سے محفوظ رہے گا۔

(4) استاد اور انکے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سُلوک کرے: شاگرد استادِ گِرامی اور انکے عزیزواقربا کے ساتھ صِلہ رحمی کرے۔ ان سے نرمی برتے۔ انکے اہلِ خانہ کو اپنے اہلِ وعیال کی طرح سمجھے۔ان کی معاونت و نُصرت کے لیے ہَمہ وقت تَن مَن دَھن سے تیار رہے۔

(5) دروازے پر دستک نہ دے: شاگرد استادِ محترم کے باہر آنے کا انتظار کرے۔ ان کے گھر وغیرہ کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے۔

یاد رکھیں! مستقبل کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار زمانہ طلبِ علم کی حرکات و سکنات پر ہوتا ہے۔لہٰذا استاد کی حق تلفی کرنے والا اگر عالم بن بھی گیا تب بھی وہ علمِ نافع کے حصول سے محروم رہے گا۔کماتَدین تُدان(جیسی کرنی ویسی بھرنی)کیا کوئی ذی شعور طالبِ علم ایسا چاہے گا؟ !!

رب تعالی ہمیں حقوقِ استاد کی پاسداری کرنے اور ان کے فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استاد ہی دنیا کا واحد شخص ہے جو ایک حساس مخلوق کی تربیت کا ذمہ اٹھانا ہے ورنہ دنیا میں ہر پیشہ ور کو بے جان چیزوں سے پالا پڑتا ہے مثلا ایک انجنیئر اپنے اوزار کو بروئے کار لاتا ہے ایک ڈاکٹر دواؤں سے علاج کرتا ہے، ایک پائلٹ اپنے حساب سے ہوائی جہاز اڑاتا ہے اس میں کوئی مدافعت کی صلاحیت نہیں ہو تی ہے مگر ایک استاد کا پالا جو ہر انسان سے ہوتا ہے جس میں مدافعت کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اپنا ری ایکشن بھی ہوتا ہے اس طرح سے ایک استاد دنیا کے ہر پیشہ ور سے مختلف اور ممتاز ہوتا ہے جو کہ دیگر کے مقابلے میں نہایت ہی مشکل ہے کیوں کہ بے جان چیزوں کو اپنے حساب سے ڈھال لینا کوئی مشکل نہیں لیکن ایک حساس چیز کو اپنی فکروں سے سانچے میں اتار کر اس کی تربیت فرمانا نہایت مشکل ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مدافعت بلکہ طبیعتوں کے اختلاف کے حساب سے الگ الگ انداز کی مدافعت اور ری ایکشن موجود ہے ، جس کو ایک ماہر استاد اپنی حکمتِ عملی تربیت سے آراستہ کرتا ہے۔ زیورِ تعلیم سے خوبصورت بناتا ہے اس کے ہر اونچ نیچ کو برداشت کرتا ہے اس کی ترقی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اس پر محنت کر کے ایک کامل انسان بناتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں ایک استاد کے بہت سارے حقوق رکھے ہیں ۔ جس میں سے چند قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

(1) عالم کا حق جاہل اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے اور وہ یہ کہ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیبت (عدم موجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔

(2) آدمی کو چاہئے کہ اپنے استاد کے حقوق و آداب کا لحاظ رکھے اپنے مال میں کسی چیز کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے ۔

(3) یہاں تک کہ استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم دیکھے اور جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لئے تواضع کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے ۔

(4) اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے اگر ایسا کرے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسی کھول دی۔

(5) استاد کی تعظیم سے ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

عالمِ دین پر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائبِ حضور پر نور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ہاں اگر کسی خلاف شرع بات کا حکم دے ہرگز نہ کرے۔


ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد صاحب کے حقوق ادا کرے۔ کیونکہ وہ ہمارے ماں باپ سے بڑھ کر بڑے مرتبہ والے ہوتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا ہو وہ میرا آقا ہے چاہے تو وہ مجھے فروخت کر دے یا آزاد کر دے یا غلام بنا لے۔ (راہِ علم ، ص 29 )

جب استاد کا اتنا عظیم مرتبہ ہے تو ان کے حقوق بھی اتنا ہی عظیم ہوں جن کی ادائیگی کامیابی کی راہیں ہموار ہوگی۔ اس لیے ذیل میں استاد کے چند حقوق تحریر کیے جا رہے ہیں ۔

(1) استاد سے پہلے کوئی کلام شروع نہ کرے۔ بلکہ خاموشی سے بات سماعت کرے ۔ جب کوئی بات پوچھنی ہو تو وہ کلام فرمالے تو بعدہ پو چھے اور بیچ میں بات نہ کاٹے بلکہ کسی کی بھی بات نہ کاٹے، اس سے دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔

(2) چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے ۔ یعنی جب راستہ وغیرہ یا کہی چلتے وقت ان سے آگے بڑھ کر نہ چلے بلکہ جب دیکھے وہ آر ہے ہیں تو ادباً رک جائے اور اسے آگے بڑھنے دے۔

(3) اگر وہ ایک حرف پڑھائے ہو تو اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے یعنی آپ کو ایک ہی لفظ پڑھائے ہوں تب بھی اس کی تعظیم و توقیر کرے اور اس کے سامنے پیش خدمت حاضر ہے۔

(4) جب کسی چیز کی حاجت ہو اور مانگے تو فوراً خوشی خوشی دے دیں۔ اور اگر وہ قبول کرلے تو احسان جانے ۔

(5) اسے اپنی جانب ہے کوئی تکلیف نہ دے۔ یعنی کوئی ایسا کام نہ کر ے کہ تکلیف پہنچے۔

جو شخص اپنے استاد کو تکلیف دیتا ہے وہ علم کی دولت سے محروم رہتا ہے کیوں کہ وہ ہمارے روحانی باپ ہوتے ہیں ہمیں چاہیے کہ انکے حقوق ادا کریں اور ادب وہ تعظیم و توقیر کرے۔ کسی نے کیا ہی خوب کہا کہ جس کو بھی جو کچھ ملا ادب و تعظیم کرنے کی وجہ سے اور جس کو بھی جو کچھ نہیں ملا بے ادبی کی وجہ سے۔ اس لیے کہتے ہیں با ادب بانصیب بے ادب بدنصیب ۔

پیارے اسلامی بھائیو! واضح رہے کہ علم نور ہے اور یہ ایسا نور ہے جس کا فائدہ مرنے کے بعد بھی بندے کو ملتا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جب آدمی مرتا ہے اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے علاوہ تین چیزوں کے : کوئی صدقہ جاریہ چھوڑ گیا یا ایسا علم جس سے لوگوں کو نفع ہو یا اولاد صالح کے جو مرنے والے کے لئے خیر کی دعا کرے ان تینوں چیزوں کا فائدہ مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اور ان چیزوں میں سے ایک اہم علم ہے، واضح رہے کہ بندہ کو علم اسی وقت آتا ہے جب بندہ اپنے استاد کا ادب کرتا ہے، تو آئیے پیارے اسلامی بھائیو! استاد کے کچھ حقوق سنتے ہیں:

(1) امام زندویستی نے فرمایا :عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر یکساں ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کریں، اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی عدم موجودگی میں بھی نہ بیٹھے، چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے، استاد کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ جب استاد روم میں ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازے پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

(2)آدمی کو چاہیے کہ اپنے استاد کے حقوق اور آداب کا لحاظ رکھے، اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی جو کچھ استاد کو درکار ہو بخوشی خاطر (خوش دلی سے) حاضر کرے، اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔

(3)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے، جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لیے تواضع (عاجزی)کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت استاد کی مدد سے باز رہے اور اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے۔ اگر ایسا کرے گا تو اس نے اسلام کے رسیوں سے ایک رسی کھول دی ۔

(4)علما فرماتے ہے ہیں جس سے اس کے استاد کو کسی طرح کی ایذا پہنچے وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو، جس استاد نے تجھے علم سکھایا اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔

عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں، اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی چہرے پر ملتے ہیں ۔

(5)علما فرماتے ہیں استاد کا شاگرد پر یہ بھی حق ہے کہ استاد کے بستر پر نہ بیٹھے اگر چہ استاد موجود نہ ہو۔

پیارے اسلامی بھائیو! یہ وہ باتیں ہیں جس پر ہر طالب علم کو غور کرنا چاہیے کیونکہ بندے کو علم حاصل ہو جاتا ہے لیکن نور علم حاصل نہیں ہوتا، نور علم کا حاصل ہونا یہ استاد کے ادب کی برکت اور پیر و مرشد کی دعا سے حاصل ہوتا ہے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں استاد کا ادب نصیب فرمائے اور ہمیں ہمارے استاد کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استاد اپنے شاگرد کی زندگی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے اسے معاشرے کا قابل فرد بناتا ہے اس کے لئے دن رات کوششوں میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح اس کا مُستقبِل روشن ہو اور اس کے اصل مقصد میں کامیابی حاصل ہو۔

تفسیر کبیر میں ہے: استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ اٰخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیر کبیر،1/401)

استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہذا طالبُ العلم کو چاہیٔے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے اور اس کا ادب بجا لانے میں ہرگز کوتاہی سے کام نہ لے بلکہ جتنا ہو سکے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ جو شاگرد یا مُرید، استاد یا پِیر و مُرشد کا زیادہ باادب اور خِدمت کرنے والا ہو وہ اس کے عِلم کا زیادہ وارِث ہوگا۔(حسن التنبہ،1/384)

استاد کا ادب و احترام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب طالب علم بننے کے لئے ان کے حقوق کا ادا کرنا بھی بہت ہی زیادہ ضروری ہے یہاں لفظِ {مدینہ} کے پانچ (5) حروف کی نسبت سے استاد کے 5 حقوق پیشِ خدمت ہیں۔

(1) استاد سے پہلے گفتگو شروع نہ کرنا۔

(2)استاد کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔

(3)چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔

(4) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے زیادہ مقدم رکھے۔

(5) استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیّت نہ پہنچنے دے۔(فتاویٰ رضویہ،24/412 ملخصًا)

لہذا طالب علم کو چاہیٔے کہ استاد کے ان حقوق کو ادا کرے اور ان کا ادب و احترام کرنے کے ساتھ ان سے دعائیں کرواتا اور خود ان کے حق میں دعائے خیر کرتا رہے ۔مزید معلومات کے لیے کتاب (کامیاب طالب علم کون) کا مطالعہ کرنا نہایت مفید ثابت ہوگا ۔اِنْ شَاءَاللّٰہُ الْکَرِیْم۔

امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے لباب الاحیاء میں شاگرد کے 7 آداب بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے علم پر تکبُّر نہ کرے اور نہ اپنے استاد پر حکم چلائے۔(ملخص از لباب الاحیاء،ص35)۔ کسی شاعر نے کہا ہے:

مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ بِالْحَرْمَةِ وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ

یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55)

ادب کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ طالب علم اگر دھوپ کے وقت اپنے استاد کے ساتھ ایسے راستے میں چلے جس میں دھوپ بھی ہو اور چھاؤں بھی تو خود دھوپ والے راستے پر چلے اور سایہ والی جگہ استاد کے لیے چھوڑ دے اور اگر سارا راستہ دھوپ والا ہے تو جدھر استاد کا سایہ پڑ رہا ہو اس طرف نہ چلے بلکہ دوسری جانب چلے تاکہ استاد محترم کے سایہ پر قدم نہ پڑیں اور جب استاد کے ساتھ کوئی دوسرا شخص ہو تو سب سے پہلے استاد سے مصافحہ کرے۔(معالم ارشادیہ،ص226 تا 227 ملخصًا)

اللہ پاک ہمیں اساتذہ کا ادب و احترام کرنے ان کے حقوق ادا کرنے اور ان سے خوب فُیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمین بِجاہِ النَّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

مُعلِّمْ(استاذ)بننا بہت ہی سعادت کی بات ہے کیوں کہ استاذ ہونا وہ عظیم منصب ہے جس کو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی ذات اقدس سے سرفراز فرمایا ہے۔ جیسا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا: اِنّما بعثتُ معلماً ترجمہ : یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب السنہ، باب فضل العلماء)

طلبہ کو سنوارنے اور ان کی کردار سازی میں استاذ کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ استاذ کی عظمت بیان کرتے ہوئے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1)جس نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا تو اللہ تعالی اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرما دیتا ہے۔(کنزالعمال،کتاب العلم،الباب الاول،رقم 28700 ،ج10،ص61 ) (2)تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قراٰن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح البخاری، کتاب: فضائل القراٰن،حدیث: 50271) طالب علم پر استاذ کے کچھ حقوق ہوتےہیں جن میں سے چند یہاں مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)استاذ سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔بغیر اجازت کلام میں ابتدا نہ کرے اور نہ ہی بغیر اجازت کے سامنے زیادہ کلام کرے۔(راہ علم، ص30)

(2)استاذ کی جگہ پر استاذ کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔

(3)چلتے وقت استاذ کے آگے نہ بڑھے۔

(4) استاذ کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کی حق سے مقدم رکھے۔

حضرت شیخ شمش الائمہ حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے کسی حادثے کی وجہ سے بخارا سے نکل کر ایک گاؤں میں سکونت اختیار کی اس عرصے میں ان کے شاگرد ملاقات کے لئے حاضر ہوتے رہے مگر ان کے ایک شاگرد شمش الائمہ زَرَنْجِی رحمۃُ الله علیہ ملاقات کے لئے حاضر نہ ہوسکے جب شمش الائمہ حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم ملاقات کے لئے کیوں نہیں آئے تو انہوں نے عرض کی عالی جاہ:میں اپنی والدہ کی خدمت میں مشغول تھا اس لئے حاضر نہ ہوسکا تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا کہ تمہیں درازئ عمر تو عطا ہوگی لیکن تم رونق درس سے محروم رہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ ان کا اکثر وقت دیہاتوں میں گزرا اور یہ کہیں بھی درس وتدریس کا انتظام نہ کر سکے(راہ علم، ص31 )

(5) اگر استاذ گھر کے اندر ہو تو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود استاذ صاحب کے باہر آنے کا انتظار کرے(کامیاب طالب علم کون؟ :ص55)

استاذ اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے طالب علم کو چاہئے کہ استاذ کے تمام تر حقوق کو بجا لائےتاکہ دنیاو آخرت میں کامیابی ضمانت ہو۔ایک مقولہ ہے : با ادب بانصیب بے ادب نصیب۔

اللہ پاک ہمیں استاذ کے حق کو بجا لانے اور انکا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


استاد اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے لہذا طالب علم کو چاہیے کہ وہ استاد کا ادب و احترام اور ان کے حقوق ادا کر کے ثواب کا حقدار بنے اور اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تمام اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔کسی نے کہا: ماوصل من وصل آلا بالحرمۃ وما سقط من سقط الابترک الحرمین یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلوتہی فرما لیا کرتے تھے ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا آج جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو، لوگوں نے عرض کی :حضور آج یہ کیا ماجرہ ہے آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟ فرمایا جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔ بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کر لی گئی جب بعد میں معلومات کی گئی تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔(تذکرۃالاولیاء،ج1،ص229)

پیارے اسلامی بھائیو ! اس سے ہمیں پتا چلا کہ ہمارے بزرگان دین بھی اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے ہیں اور ان کے حقوق بھی بجا لاتے ہیں لہذا ہمیں چاہیے کہ استاذ کے تمام حقوق بجالائے ان کی تعظیم کرتے ہوئے ان سے بات کرتے وقت نگاہیں یعنی آنکھیں نیچی رکھیں جو حکم ارشاد فرمائیں اس کو پورا کرے جو سبق دے اسے اچھے سے اچھا یاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر ہمیں کسی بات پر ڈانٹ دے اور ہماری اس میں غلطی بھی نہ ہو پھر بھی ہمیں ان کے سامنے اچھے سے پیش آنا ہے بجائے اس کے کہ ان سے ناراض ہو جائے ان کے سامنے آنکھیں نکالتے ہوئے بات کرنا ان کے ادب کا لحاظ نہ کرنا ان کی پیچھے سے برائیاں اور ان کی غلطیاں ڈھونڈنا اگر ہم نے ایسا کیا تو کامیابی کے بجائے ناکامی ملے گی ہر طرف سے رسوائیاں ہونگی۔ذلیل و خوار پھرتے رہو گے کیونکہ مشہور محاورا ہے :با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔

آیئے پیارے اسلامی بھائیو ہم استاد کا ادب و احترام اور ان بابرکت ہستیاں (اساتذہ کرام) کے پانچ5 حقوق سماعت کرتے ہیں:

اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کتب معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ کہ

(1)اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کریں

(2) اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے

(3) چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے

(4)اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے

(5) (اسے اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ) جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(فتاویٰ رضویہ، 10/ 96)

محترم قارئین! ہم نے استاد محترم کے چند حقوق پڑھے لیکن ان کے علاوہ ان حضرات کے اور بھی حقوق ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ اساتذہ کرام کے حقوق بھی ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استاد کى عظمت سب سے زىادہ ہے، ہر طالب علم کو چاہىے کہ استاد کى تعظیم و توقیر کو اپنے اوپر لازم کرلے، اسى مىں طالب علم کے لىے دنیا و آخرت مىں کامىابى ہے، کوئى طالب علم اس وقت نہ علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس سے نفع حاصل کرسکتا ہے جب تک کہ استاد کى تعظیم نہ کرے۔منقول ہے کہ : بوڑھے مسلمان، عالمِ دین، حافظِ قراٰن، عادل بادشاہ اور استاد کى عزت کرنا تعظیم خدا وندى مىں داخل ہے۔ امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے جب تک کہ وہ علم ،اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو ۔ ( راہ علم )

(1) علم کے لئے سفر کرنا اللہ پاککے نبی علیہ السّلام کی سنت ہے۔(2) استاد کے پاس جانا اور اسے گھر نہ بلانا سنت ہے۔(3) استاد کا ادب کرنا ضروری ہے۔(4) استاد کی بات پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔(5) علم صرف کتا ب سے نہیں آتا بلکہ استاد کی صحبت سے بھی آتا ہے۔(6) بزرگوں کی صحبت کیمیا کا اثر رکھتی ہے۔(پارہ 15،سورہ کھف ، آیت ، 60 تفسیر صراط الجنان)

(7) ہمیشہ استاد کے احسانات کو پیش نظر رکھنا چاہىے۔(8) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے عمل پر مقدم رکھو۔(9)اپنے استاد کے سامنے عاجزى کا اظہار کرو۔(10)ان سے پہلے گفتگو نہ کرے۔(11) چلتے وقت ان سے آگے نہ بڑھے۔(12)ہر اس کام سے بچے جس مىں بے ادبى کا اندیشہ ہو۔(13) اپنے مال میں سے کسى چیز سے استاد کے حق میں بخل نہ کرے یعنى جو کچھ درکار ہو بخوشى حاضر کردے۔( صراط الجنان ، راہ علم، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ الحقوق لطرح العقوق)