محمد اسماعیل عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ بخاری کراچی پاکستان)
دینِ اسلام نے جس طرح
میاں بیوی، والدین، اولاد وغیرہ کے حقوق بیان فرمائے ہیں اسی طرح استاذ کے بھی حقوق
بیان فرمائے ہیں۔ جس طرح والدین اپنے بچوں کے ظاہری بدن کی تربیت و پرورش کرتے ہیں
اسی طرح ایک دینی استاذ طالب علم کی روحانی اصلاح و پرورش کرتا ہے۔ ہمیں بھی شریعت
کے مطابق استاذ کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اس کی تعظیم کرنی چاہئے کیونکہ استاذ کی
تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے۔ چنانچہ
پہلا حق: اپنے آپ کو استاذ سے افضل قرار نہ دینا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام
سیکھو جس استاذ نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عقلمند اور سعادت مند اگر
استاذ سے بڑھ بھی جائے تو اسے استاذ کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے
بھی زیادہ استاذ کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں۔(فتاوی رضویہ، ج24 ،ص424)
دوسرا حق: استاذ کا ادب و احترام کرنا :طالب علم کو چاہئے کہ
کبھی استاذ کے آگے نہ چلے، نہ اس کی نشست گاہ پر بیٹھے، نہ تو بغیر اجازت کلام میں
ابتدا کرے اور نہ ہی بغیر اجازت استاذ کے سامنے زیادہ کلام کرے، جب وہ پریشان ہو
تو کوئی سوال نہ کرے بلکہ وقت کا لحاظ رکھے اور نہ ہی استاذ کے دروازے کو کھٹکھٹائے
بلکہ اسے چاہئے کہ وہ صبر سے کام لے اور استاذ کے باہر آنے کا انتظار کرے الغرض
طالب علم کو چاہیے کہ ہر وقت استاذ کی رضا کو پیش نظر رکھے اور اس کی ناراضی سے
بچے اور اللہ کی نافرمانی والے کاموں کے علاوہ ہر معاملے میں استاذ کے حکم کی
تعمیل کرے ۔(راہ علم، ص30)
تیسرا حق: استاذ کی ناشکری نہ کرنا: استاذ کی ناشکری جو کہ
خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے۔(فتاوی
رضویہ، ج24 ،ص214)
چوتھا حق: استاذ کے حقوق کا انکار نہ کرنا:اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: استاذ کے حقوق
کا انکار جو کہ مسلمانوں بلکہ تمام عقل والوں کے اتفاق کے خلاف ہے، یہ بات ناشکری
سے جدا ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ احسان کے بدلے کوئی نیکی نہ کی جائے اور
انکار یہ ہے کہ سِرے سے احسان ہی کو نہ مانا جائے اور یہ کہنا کہ استاذ نے تو مجھے
صرف ابتدا میں پڑھایا تھا اس شخص کے لئے کچھ مفید نہیں کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے
اور حدیث شریف بھی ہے کہ جس نے تھوڑے احسان کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا
بھی شکر نہیں کیا۔(فتاوی رضویہ، ج24 ،ص217/218)
پانچواں حق: استاذ کے حق کو والدین کے حق پر
مقدم رکھنا: علما فرماتے ہیں کہ استاذ
کے حق کو والدین کے حقوق پر مقدم رکھنا چاہیے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی
ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے۔( فتاوی رضویہ، ج24 ،ص421)
اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان
حقوق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین