استاد کى عظمت سب سے زىادہ ہے، ہر طالب علم کو چاہىے کہ استاد کى تعظیم و توقیر کو اپنے اوپر لازم کرلے، اسى مىں طالب علم کے لىے دنیا و آخرت مىں کامىابى ہے، کوئى طالب علم اس وقت نہ علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس سے نفع حاصل کرسکتا ہے جب تک کہ استاد کى تعظیم نہ کرے۔منقول ہے کہ : بوڑھے مسلمان، عالمِ دین، حافظِ قراٰن، عادل بادشاہ اور استاد کى عزت کرنا تعظیم خدا وندى مىں داخل ہے۔ امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے جب تک کہ وہ علم ،اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو ۔ ( راہ علم )

(1) علم کے لئے سفر کرنا اللہ پاککے نبی علیہ السّلام کی سنت ہے۔(2) استاد کے پاس جانا اور اسے گھر نہ بلانا سنت ہے۔(3) استاد کا ادب کرنا ضروری ہے۔(4) استاد کی بات پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔(5) علم صرف کتا ب سے نہیں آتا بلکہ استاد کی صحبت سے بھی آتا ہے۔(6) بزرگوں کی صحبت کیمیا کا اثر رکھتی ہے۔(پارہ 15،سورہ کھف ، آیت ، 60 تفسیر صراط الجنان)

(7) ہمیشہ استاد کے احسانات کو پیش نظر رکھنا چاہىے۔(8) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے عمل پر مقدم رکھو۔(9)اپنے استاد کے سامنے عاجزى کا اظہار کرو۔(10)ان سے پہلے گفتگو نہ کرے۔(11) چلتے وقت ان سے آگے نہ بڑھے۔(12)ہر اس کام سے بچے جس مىں بے ادبى کا اندیشہ ہو۔(13) اپنے مال میں سے کسى چیز سے استاد کے حق میں بخل نہ کرے یعنى جو کچھ درکار ہو بخوشى حاضر کردے۔( صراط الجنان ، راہ علم، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ الحقوق لطرح العقوق)