سمیع اللہ (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدر آباد،ہند)
استاد اپنے شاگرد کی
زندگی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے اسے معاشرے کا قابل فرد بناتا ہے اس کے لئے
دن رات کوششوں میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح اس کا مُستقبِل روشن ہو اور اس کے اصل
مقصد میں کامیابی حاصل ہو۔
تفسیر کبیر میں ہے: استاد
اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی
آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ اٰخرت سے بچاتے
ہیں۔(تفسیر کبیر،1/401)
استاد روحانی باپ کا درجہ
رکھتا ہے لہذا طالبُ العلم کو چاہیٔے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص
جانے اور اس کا ادب بجا لانے میں ہرگز کوتاہی سے کام نہ لے بلکہ جتنا ہو سکے اسے
خوش رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ جو شاگرد یا مُرید، استاد یا پِیر و مُرشد کا زیادہ
باادب اور خِدمت کرنے والا ہو وہ اس کے عِلم کا زیادہ وارِث ہوگا۔(حسن التنبہ،1/384)
استاد کا ادب و احترام
کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب طالب علم بننے کے لئے ان کے حقوق کا ادا کرنا بھی
بہت ہی زیادہ ضروری ہے یہاں لفظِ {مدینہ} کے پانچ (5) حروف کی نسبت سے استاد کے 5
حقوق پیشِ خدمت ہیں۔
(1) استاد سے پہلے گفتگو شروع
نہ کرنا۔
(2)استاد کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔
(3)چلتے وقت اس سے آگے نہ
بڑھے۔
(4) استاد کے حق کو اپنے ماں
باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے زیادہ مقدم رکھے۔
(5) استاد کو اپنی جانب سے
کسی قسم کی اذیّت نہ پہنچنے دے۔(فتاویٰ رضویہ،24/412 ملخصًا)
لہذا طالب علم کو چاہیٔے
کہ استاد کے ان حقوق کو ادا کرے اور ان کا ادب و احترام کرنے کے ساتھ ان سے دعائیں
کرواتا اور خود ان کے حق میں دعائے خیر کرتا رہے ۔مزید معلومات کے لیے کتاب
(کامیاب طالب علم کون) کا مطالعہ کرنا نہایت مفید ثابت ہوگا ۔اِنْ شَاءَاللّٰہُ الْکَرِیْم۔
امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے لباب الاحیاء میں شاگرد
کے 7 آداب بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے علم پر تکبُّر نہ کرے
اور نہ اپنے استاد پر حکم چلائے۔(ملخص از لباب الاحیاء،ص35)۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55)
ادب کا ایک طریقہ یہ بھی
ہے کہ طالب علم اگر دھوپ کے وقت اپنے استاد کے ساتھ ایسے راستے میں چلے جس میں
دھوپ بھی ہو اور چھاؤں بھی تو خود دھوپ والے راستے پر چلے اور سایہ والی جگہ استاد
کے لیے چھوڑ دے اور اگر سارا راستہ دھوپ والا ہے تو جدھر استاد کا سایہ پڑ رہا ہو
اس طرف نہ چلے بلکہ دوسری جانب چلے تاکہ استاد محترم کے سایہ پر قدم نہ پڑیں اور
جب استاد کے ساتھ کوئی دوسرا شخص ہو تو سب سے پہلے استاد سے مصافحہ کرے۔(معالم
ارشادیہ،ص226 تا 227 ملخصًا)