مُعلِّمْ(استاذ)بننا بہت ہی سعادت کی بات ہے کیوں کہ استاذ ہونا وہ عظیم منصب ہے جس کو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی ذات اقدس سے سرفراز فرمایا ہے۔ جیسا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا: اِنّما بعثتُ معلماً ترجمہ : یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب السنہ، باب فضل العلماء)

طلبہ کو سنوارنے اور ان کی کردار سازی میں استاذ کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ استاذ کی عظمت بیان کرتے ہوئے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1)جس نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا تو اللہ تعالی اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرما دیتا ہے۔(کنزالعمال،کتاب العلم،الباب الاول،رقم 28700 ،ج10،ص61 ) (2)تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قراٰن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح البخاری، کتاب: فضائل القراٰن،حدیث: 50271) طالب علم پر استاذ کے کچھ حقوق ہوتےہیں جن میں سے چند یہاں مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)استاذ سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔بغیر اجازت کلام میں ابتدا نہ کرے اور نہ ہی بغیر اجازت کے سامنے زیادہ کلام کرے۔(راہ علم، ص30)

(2)استاذ کی جگہ پر استاذ کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔

(3)چلتے وقت استاذ کے آگے نہ بڑھے۔

(4) استاذ کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کی حق سے مقدم رکھے۔

حضرت شیخ شمش الائمہ حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے کسی حادثے کی وجہ سے بخارا سے نکل کر ایک گاؤں میں سکونت اختیار کی اس عرصے میں ان کے شاگرد ملاقات کے لئے حاضر ہوتے رہے مگر ان کے ایک شاگرد شمش الائمہ زَرَنْجِی رحمۃُ الله علیہ ملاقات کے لئے حاضر نہ ہوسکے جب شمش الائمہ حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم ملاقات کے لئے کیوں نہیں آئے تو انہوں نے عرض کی عالی جاہ:میں اپنی والدہ کی خدمت میں مشغول تھا اس لئے حاضر نہ ہوسکا تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا کہ تمہیں درازئ عمر تو عطا ہوگی لیکن تم رونق درس سے محروم رہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ ان کا اکثر وقت دیہاتوں میں گزرا اور یہ کہیں بھی درس وتدریس کا انتظام نہ کر سکے(راہ علم، ص31 )

(5) اگر استاذ گھر کے اندر ہو تو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود استاذ صاحب کے باہر آنے کا انتظار کرے(کامیاب طالب علم کون؟ :ص55)

استاذ اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے طالب علم کو چاہئے کہ استاذ کے تمام تر حقوق کو بجا لائےتاکہ دنیاو آخرت میں کامیابی ضمانت ہو۔ایک مقولہ ہے : با ادب بانصیب بے ادب نصیب۔

اللہ پاک ہمیں استاذ کے حق کو بجا لانے اور انکا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین