ابو المسعود عارف علی مدنی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضانِ اہل بیت ،کراچی
پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو!جس
شخص نے آپ کو ایک لفظ بھی سکھایا، وہ آپ کا معلم (استاذ) ہے ۔لیکن بالخصوص استاد
یا معلم کا اطلاق ان لوگوں پر کیا جاتا ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد، معاونت و
رہنمائی کرتا ہے ابتدائی اور ثانوی درجے کے مدارس، اسکولوں، کالجوں یا پھر اعلیٰ
ثانوی اور سند کے درجے تک کے جامعات وغیرہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ المختصر
یہ کہ تمام طرح کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے والوں پر اس لفظ اطلاق ہوتا ہے۔
استاذ وہ نور ہے جس کے
ذریعے طالب علم کے عقل سے ظلمت کے پردے اٹھ جاتے ہیں،
استاذ وہ چراغ ہے جس کے ذریعے طالب علم روشنی
حاصل کرتے ہیں۔ استاذ وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے طالب علم کامیابی کے اونچائیوں پر
پہنچ جاتا ہے۔ استاذ کا مقام بہت بلند و برتر ہے۔
حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا
: انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ
وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔
اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص
78)
جس طرح استاذ کا مقام بلند
تر بالکل اسی طرح استاذ کے حقوق بھی بہت اہم ہے جن کو ادا کرنا ہم تمام پر لازم ہے۔
استاذ کے5 حروف کی نسبت سے5 حقوق:(1) ادب:استاذ کے حقوق میں سب سے
پہلا اور نہایت اہمیت کا حامل حق ادب و احترامِ : عربى مقولہ ہے: الاَدَبُ شَجَرٌ وَالعِلْمُ ثَمَرٌ فَکَیْفَ
تَجِدُوْنَ الثَّمَرَ بِدُوْنِ الشَّجَرِ ترجمہ : ادب درخت ہے اور علم پھل ہے، پھر تم بغیر
درخت کے پھل کیسے حاصل کرسکتے ہو؟ استاذ کا ادب ہی طالب علم کو کامیابی و کامرانی
کی طرف لے جاتا ہے اور استاذ کی بے ادبی سے ذہین و فطین طالب علم بھی نا مرادی کے
دہانے پر آجاتا ہے۔
خود سے چل کر یہ طرز سخن نہیں آیا ہے
پاؤں استاذ کے دابیں ہیں تو فن آیا ہے
(2) نا شکری: استاذ کے حقوق میں سے ایک حق ان کا
شکر ادا کرنا بھی ہے طالب علم کو ہمیشہ اپنے استاذ کا شکر گزار رہنا چاہیے کیونکہ
آپ کے اچھے اور کشادہ مستقبل کے پیچھے بڑا کردار استاذ محترم کا ہی ہوتا ہے استاذ
ہی وہ کاریگر ہے جو کوئلے کو چمکتے ہوئے ہیرے میں تبدیل کر دیتا ہے نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللَّهَ ترجمہ: جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے
وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا۔(جامع ترمذی: حدیث:1954، سنن ابی داؤد،حدیث:4811)
(3) فوقیت:استاذ کو طالب علم پر بحیثیت استاذ
ہمیشہ فوقیت حاصل ہوتی (جبکہ غیر شرعی معاملات میں نہ پڑ جائے) لیکن ہائے افسوس!
کہ دورِ حاضر میں اساتذہ کی حق تلفی یوں ہوتے ہوے نظر آتی ہے کہ اگر کوئی طالب علم،
علم کے حصول میں استاذ سے آگے بڑھ جائے تو وہ استاذ کو فوقیت دینا بھی کم کر دیتا
ہے مثال کے طور جس طالب علم نے ماسٹر کر لیا تو وہ گریجویشن پڑھانے والے اپنے
استاذ کو اپنے سے کم تر سمجھنے لگتا ہے اسی طرح دیگر شعبہ جات کو بھی قیاس کر لیں
حالانکہ گزشتہ زمانوں میں اس طرح کی مثالیں ہیں کہ طلبا اپنی ہر کامیابی پر اپنے
اساتذہ کو یاد اور انہیں فوقیت دیا کرتے تھے۔
(4) حفظ
سبق:اساتذہ کے حقوق میں سے
ایک حق یہ بھی ہے کہ طلبائے کرام اپنے اسباق اور ہر اس عمل کو پورا کریں جس کا
استاذ صاحب نے انہیں حکم فرمایا ہے۔کیونکہ اسباق یاد نہ کرنا (home work) مکمل نہ کرنا
جہاں طلبائے کرام کے لیے نہایت نقصان دہ فعل ہے وہیں دوسری طرف وہ اساتذہ کی دل
آزاری کا بھی سبب ہے۔
(5) استاذ اور معاشی فکر: اساتذہ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی
ہے کہ وہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر علم کے فروغ میں مصروفِ عمل رہے۔ یہ ہماری
بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد معاشی طور پر نہایت پَس ماندگی کی زندگی
گزارنے پر مجبور ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تعلیم کا شعبہ دیگر شعبوں کے
مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے شعبہ تدریس کا انتخاب اہل، ذہین اور
قابل نوجوانوں کی آخری ترجیح ہوتی ہے۔ حالانکہ قوموں کی ترقی و عروج کے حوالے سے
علم کا حصول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ علم سے آگاہی اور اس کی ترویج ہی انسانی
تہذیب و ترقی کا ذریعہ بن کر عظمتوں اور رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہے ہمیں اساتذہ
کرام کو معاشی فکر سے آزاد کرنا چاہیے تاکہ وہ صحیح معنوں علم کی ترویج و اشاعت کے
لیے کوشاں رہ سکیں۔
یہاں اسی پر اکتفا کیا
جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی اساتذہ کے حقوق علمائے کرام نے بیان فرمائے ہیں اللہ
پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ بوسیلہ پیارے اور آخری نبی معلم کائنات صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اساتذہ کے حقوق کی معرفت اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین
یہ کامیابیاں، عزت یہ نام، تم سے ہے
دنیا میں ملا جو بھی مقام، تم سے ہے
جہاں جہاں ہوں برا سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا نام تم سے ہے