اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور مختلف مراتب عطا فرمائے ان میں سے بعض خوش نصیب لوگ وہ بھی ہیں جن کو اللہ نے استاذ بننے کا شرف عطا فرمایا دین اسلام میں استاذ کو اللہ پاک نے بڑا مقام و مرتبہ عطا فرمایا یہاں تک کہ استاذ کو سگے باپ پر فضیلت حاصل ہوئی کیونکہ والد کے ذریعے بدن کی زندگی ہے جب کہ استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے اور شریعت میں استاذ کے حقوق بیان کیے گئے جن کو بجا لانا طلبا پر ضروری ہے آئیے ان میں سے پانچ حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔

(1) استاذ کی ناشکری نہ کریں کہ یہ ایک خوفناک بلا اور تباہ کر دینے والی بیماری ہے اور علم کی برکت کو ختم کر دینے والی ہے ۔حضور علیہ الصلوة والسّلام نے ارشاد فرمایا " وہ آدمی اللہ تعالی کا شکر ادا نہیں کرتا جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ۔( سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب فی شکر المعروف ، الحدیث 4811 ، جلد 4 ، صفحہ 335 )اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: وَ هَلْ نُجٰزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ ترجمہ کنز العرفان : اور ہم کسے سزا دیتے ہیں اُسی کو جو نا شکرا ہے۔( پ 22 ، سبا : 17 )

(2) استاذ کی ابتدائی تعلیم کو حقیر نہ جانیں کہ یہ معاذ اللہ قراٰن مجید اور فقہ کی چھوٹی کتابوں کی توہین کی طرف لے جاتا ہے گویا کہ جس نے انہیں پڑھا اس نے کچھ نہیں پڑھا۔

(3) استاذ کا کبھی بھی مقابلہ نہ کریں کہ یہ ناشکری سے بھی زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلہ کرنے میں شکر کی بجائے اس کی مخالفت بھی ہے اور یہ گویا کہ ایسے ہی ہے جیسے باپ کی نافرمانی کرنا کیونکہ استاذ کو باپ کے برابر شمار کیا گیا ہے ۔اسی لیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا " میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم سکھاتا ہوں " ( سنن ابی داؤد ، کتاب الطہارة ، الحدیث 8 ، جلد 1 ، صفحہ 37 )بلکہ علما فرماتے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے ۔

(4) استاذ کے سامنے غلام کی طرح رہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ " جس نے کسی کو قراٰن مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے ۔( المعجم الکبیر ، حدیث 7528 ، 8/ 112 )مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ " جس نے مجھے ایک حرف سکھایا پس تحقیق اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو بیچ دے چاہے تو آزاد کر دے "

(5) اپنے آپ کو کبھی بھی استاذ سے افضل نہ سمجھے کہ یہ خلاف مامور ہے ۔نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا " علم سیکھو اور علم کے لیے ادب واحترام سیکھو ، جس استاد نے تجھے علم سکھایا اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو "( المعجم الاوسط ،من اسمہ محمد ، حدیث 6184 ، 4/ 342 )

یاد رکھیں عقل مند اور سعادت مند شاگرد اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اسکی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی چہرے پہ ملتے ہیں ۔(ملخص از الحقوق لطرح العقوق للامام احمد رضا)

اللہ پاک ہمیں اساتذہ کرام کے حقوق بجا لانے اور انکا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم