استاد اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے لہذا طالب علم کو چاہیے کہ وہ استاد کا ادب و احترام اور ان کے حقوق ادا کر کے ثواب کا حقدار بنے اور اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تمام اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔کسی نے کہا: ماوصل من وصل آلا بالحرمۃ وما سقط من سقط الابترک الحرمین یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلوتہی فرما لیا کرتے تھے ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا آج جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو، لوگوں نے عرض کی :حضور آج یہ کیا ماجرہ ہے آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟ فرمایا جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔ بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کر لی گئی جب بعد میں معلومات کی گئی تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔(تذکرۃالاولیاء،ج1،ص229)

پیارے اسلامی بھائیو ! اس سے ہمیں پتا چلا کہ ہمارے بزرگان دین بھی اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے ہیں اور ان کے حقوق بھی بجا لاتے ہیں لہذا ہمیں چاہیے کہ استاذ کے تمام حقوق بجالائے ان کی تعظیم کرتے ہوئے ان سے بات کرتے وقت نگاہیں یعنی آنکھیں نیچی رکھیں جو حکم ارشاد فرمائیں اس کو پورا کرے جو سبق دے اسے اچھے سے اچھا یاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر ہمیں کسی بات پر ڈانٹ دے اور ہماری اس میں غلطی بھی نہ ہو پھر بھی ہمیں ان کے سامنے اچھے سے پیش آنا ہے بجائے اس کے کہ ان سے ناراض ہو جائے ان کے سامنے آنکھیں نکالتے ہوئے بات کرنا ان کے ادب کا لحاظ نہ کرنا ان کی پیچھے سے برائیاں اور ان کی غلطیاں ڈھونڈنا اگر ہم نے ایسا کیا تو کامیابی کے بجائے ناکامی ملے گی ہر طرف سے رسوائیاں ہونگی۔ذلیل و خوار پھرتے رہو گے کیونکہ مشہور محاورا ہے :با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔

آیئے پیارے اسلامی بھائیو ہم استاد کا ادب و احترام اور ان بابرکت ہستیاں (اساتذہ کرام) کے پانچ5 حقوق سماعت کرتے ہیں:

اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کتب معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ کہ

(1)اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کریں

(2) اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے

(3) چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے

(4)اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے

(5) (اسے اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ) جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(فتاویٰ رضویہ، 10/ 96)

محترم قارئین! ہم نے استاد محترم کے چند حقوق پڑھے لیکن ان کے علاوہ ان حضرات کے اور بھی حقوق ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ اساتذہ کرام کے حقوق بھی ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم