استاد ہی دنیا کا واحد شخص ہے جو ایک حساس مخلوق کی تربیت کا ذمہ اٹھانا ہے ورنہ دنیا میں ہر پیشہ ور کو بے جان چیزوں سے پالا پڑتا ہے مثلا ایک انجنیئر اپنے اوزار کو بروئے کار لاتا ہے ایک ڈاکٹر دواؤں سے علاج کرتا ہے، ایک پائلٹ اپنے حساب سے ہوائی جہاز اڑاتا ہے اس میں کوئی مدافعت کی صلاحیت نہیں ہو تی ہے مگر ایک استاد کا پالا جو ہر انسان سے ہوتا ہے جس میں مدافعت کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اپنا ری ایکشن بھی ہوتا ہے اس طرح سے ایک استاد دنیا کے ہر پیشہ ور سے مختلف اور ممتاز ہوتا ہے جو کہ دیگر کے مقابلے میں نہایت ہی مشکل ہے کیوں کہ بے جان چیزوں کو اپنے حساب سے ڈھال لینا کوئی مشکل نہیں لیکن ایک حساس چیز کو اپنی فکروں سے سانچے میں اتار کر اس کی تربیت فرمانا نہایت مشکل ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مدافعت بلکہ طبیعتوں کے اختلاف کے حساب سے الگ الگ انداز کی مدافعت اور ری ایکشن موجود ہے ، جس کو ایک ماہر استاد اپنی حکمتِ عملی تربیت سے آراستہ کرتا ہے۔ زیورِ تعلیم سے خوبصورت بناتا ہے اس کے ہر اونچ نیچ کو برداشت کرتا ہے اس کی ترقی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اس پر محنت کر کے ایک کامل انسان بناتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں ایک استاد کے بہت سارے حقوق رکھے ہیں ۔ جس میں سے چند قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

(1) عالم کا حق جاہل اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے اور وہ یہ کہ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیبت (عدم موجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔

(2) آدمی کو چاہئے کہ اپنے استاد کے حقوق و آداب کا لحاظ رکھے اپنے مال میں کسی چیز کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے ۔

(3) یہاں تک کہ استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم دیکھے اور جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لئے تواضع کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے ۔

(4) اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے اگر ایسا کرے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسی کھول دی۔

(5) استاد کی تعظیم سے ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

عالمِ دین پر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائبِ حضور پر نور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ہاں اگر کسی خلاف شرع بات کا حکم دے ہرگز نہ کرے۔