مشہور قول ہے کہ ’’جس نے معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں معلّم (استاد) کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ امام الانبیا، خاتم النبیین، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمین، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’اِنما بعثت معلما‘‘ (ترجمہ) میں بہ طور معلّم (استاد) مبعوث کیا گیا ہوں۔ (ابنِ ماجہ) سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’اللہ پاک نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بناکر نہیں، بلکہ معلّم اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں کہ تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں۔‘‘ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے۔حضور نبی کریم کا ارشاد ہے کہ ’’تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ تیرے دنیا میں آنے کا باعث بنا، یعنی والد، دوسرا وہ، جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، یعنی سسر اور تیسرا وہ، جس نے تجھے علم و آگہی سے نوازا، یعنی استاد۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروق سے پوچھا گیا ’’آپ اتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خلیفہ ہیں، کیا اس کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟‘‘ فرمایا! ’’کاش! میں ایک معلّم ہوتا۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا علی مرتضیٰ کا قول ہے کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا، میں اسے استاد کا درجہ دیتا ہوں۔‘‘

استاد کا مرتبہ و مقام: علم کا حقیقی سرچشمہ اللہ رب العزت ہے کہ جس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو علم کی بِنا پر فرشتوں پر برتری دی اور پھر انبیا کے ذریعے انسانوں کو عِلم کے زیور سے آراستہ کیا۔ نبی آخرالزماں جب منصبِ رسالت پر فائز ہوئے، تو اللہ جل شانہ نے اپنے محبوب پر حضرت جبرائیل کے ذریعے جو پہلی وحی نازل فرمائی، وہ پڑھنے ہی سے متعلق تھی۔ فرمایا۔ (ترجمہ) ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے (عالم کو) پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں، جس کا اسے علم نہ تھا۔ (سورۃ العلق)اسلام سے قبل عربوں میں لکھنا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ بعثتِ نبوت کے وقت پورے عرب میں صرف17افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضور نے عِلم کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجّہ فرمائی۔ مدینہ ہجرت فرماتے ہی مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ مسجد کے صحن میں درس و تعلیم کے لیے ایک چبوترے کی تعمیر فرمائی، جو ’’صفّہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دنیائے اسلام کی پہلی درس گاہ قرار پائی، جہاں صحابہ کرام اجمعین نے حضور سے قراٰن و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرکے دنیا کی تاریکی کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور فرمایا۔ اصحابِ صفّہ، دن رات خدمتِ دین اور حصولِ علم میں مصروف رہتے۔اللہ کے نبی بنفسِ نفیس ان اصحاب کو درس و تعلیم دیتے اور ان کی تربیت فرماتے۔ آپ نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ’’میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے، جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا۔‘‘ (بیہقی)

استاد کے چند حقوق آپ بھی پڑھئے:

پہلا حق: استاد کا ادب و احترام:استاد کا پہلا حق ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر۔

دوسرا حق: یہ بھی حق ہے کہ شاگرد کبھی بھی کسی حالت میں بھی استاد کو برا بھلا نہ کہیں اور نہ ہی استاد کی مخالفت کریں نہ غیبت کریں نہ ہی استاد کی پیٹھ پیچھے استاد کی نقلیں اتاریں اور نہ ہی بہتان باندھیں۔

تیسرا حق: اور یہ بھی حق ہے کہ شاگرد ہمیشہ ہر نماز کے بعد اپنے اساتذہ کے لیے دعا کریں اور استاد سے منسوب ہر چیز کا ادب کرے خدا نخواستہ استاد بیمار ہو جائے تو اس کے عیادت کے لیے جائے استاد کی اولاد کا ادب کرے۔

چوتھا حق:یہ بھی حق ہے کہ شاگرد استاد کی اجازت کے بغیر کلاس سے نہ اٹھے، استاد سے بحث،ضد،غصے،یا ناراضگی سے پرہیز کیا جائے، کسی مسئلے پر استاد سے اختلاف رائے بھی ادب و احترام کے دائرے میں کیا جائے۔

پانچواں حق:شاگرد کو یہ چاہیے کہ اپنی حیات میں کسی بھی مقام پر پہنچ جائے اس طرح ہی ادب کرے جس طرح پہلے ادب کرتا تھا۔فرمان امام ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ: میں نے کبھی اپنے ا استاد کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیے حالانکہ ان کے اور میرے گھر میں سات گلیوں کا فاصلہ تھا۔فرمان امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ: ادب و احترام کی وجہ سے میں استاد کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ پلٹتا تھا ۔