ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد صاحب کے حقوق ادا کرے۔ کیونکہ وہ ہمارے ماں باپ سے بڑھ کر بڑے مرتبہ والے ہوتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا ہو وہ میرا آقا ہے چاہے تو وہ مجھے فروخت کر دے یا آزاد کر دے یا غلام بنا لے۔ (راہِ علم ، ص 29 )

جب استاد کا اتنا عظیم مرتبہ ہے تو ان کے حقوق بھی اتنا ہی عظیم ہوں جن کی ادائیگی کامیابی کی راہیں ہموار ہوگی۔ اس لیے ذیل میں استاد کے چند حقوق تحریر کیے جا رہے ہیں ۔

(1) استاد سے پہلے کوئی کلام شروع نہ کرے۔ بلکہ خاموشی سے بات سماعت کرے ۔ جب کوئی بات پوچھنی ہو تو وہ کلام فرمالے تو بعدہ پو چھے اور بیچ میں بات نہ کاٹے بلکہ کسی کی بھی بات نہ کاٹے، اس سے دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔

(2) چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے ۔ یعنی جب راستہ وغیرہ یا کہی چلتے وقت ان سے آگے بڑھ کر نہ چلے بلکہ جب دیکھے وہ آر ہے ہیں تو ادباً رک جائے اور اسے آگے بڑھنے دے۔

(3) اگر وہ ایک حرف پڑھائے ہو تو اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے یعنی آپ کو ایک ہی لفظ پڑھائے ہوں تب بھی اس کی تعظیم و توقیر کرے اور اس کے سامنے پیش خدمت حاضر ہے۔

(4) جب کسی چیز کی حاجت ہو اور مانگے تو فوراً خوشی خوشی دے دیں۔ اور اگر وہ قبول کرلے تو احسان جانے ۔

(5) اسے اپنی جانب ہے کوئی تکلیف نہ دے۔ یعنی کوئی ایسا کام نہ کر ے کہ تکلیف پہنچے۔

جو شخص اپنے استاد کو تکلیف دیتا ہے وہ علم کی دولت سے محروم رہتا ہے کیوں کہ وہ ہمارے روحانی باپ ہوتے ہیں ہمیں چاہیے کہ انکے حقوق ادا کریں اور ادب وہ تعظیم و توقیر کرے۔ کسی نے کیا ہی خوب کہا کہ جس کو بھی جو کچھ ملا ادب و تعظیم کرنے کی وجہ سے اور جس کو بھی جو کچھ نہیں ملا بے ادبی کی وجہ سے۔ اس لیے کہتے ہیں با ادب بانصیب بے ادب بدنصیب ۔