فیصل الیاس حسین(درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ نواب شاہ ،سندھ
،پاکستان)
استاد ایک عظیم ہستی ہے۔ یہ
وہ ذات ہے جو اپنی طویل زندگی کے تجرِبات و مشاہدات اپنے شاگرد کو قلیل عرصے میں
عطا کرتا ہے۔انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد اپنے شاگرد کو جوہرِ نایاب بناتا ہے۔ معاشرے
میں رہنے کا سلیقہ، لوگوں سے میل جول رکھنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔یہ و دنیا و آخرت
میں کامیابی و کامرانی کے گُر بتاتا ہے۔ ملک و ملّت کا تعلیم یافتہ،باعزت و باوقار
شہری بناتا ہے۔الغرض یہ راہبر شاگرد کی اخلاقی،سماجی،معاشرتی،معاشی،ہر لحاظ سے
زندگی سنوارتا ہے۔یہ باکمال شخص باپ سے بڑھ کر مہربان و شفیق ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے
کہ شاگرد پر استاد کے بے شمار حقوق ہیں۔
”استاد“ کے پانچ حروف کی نسبت سے پانچ حقوق
ملاحظہ کیجیے:
(1) روحانی باپ کا درجہ دے :شاگرد پر لازم ہے کہ
استاد کی تعظیم والد کی تعظیم سے بڑھ کر کرے۔یہ تعظیم و تکریم دکھاوے کے طور پر(دل
میں عزت نہ ہوتے ہوئے استاد کے سامنے نظر جھکا لینا،ہاتھ باندھ لینا،چپل ان سے لے کر
خود تھام لینا وغیرہ)نہ کرے۔دل سے عزت کرے۔اور اس دلی تعظیم و توقیر کی جھلک شاگر
کے افعال و کردار سے چھلکنی بھی چاہئے۔
(2) مَسندِ استاد کی تعظیم کرے: شاگرد استاد کی
مَسند(استاد کے بیٹھنے کی جگہ)پر بیٹھے نہ ٹیک لگائے نہ اس کی طرف پاؤں پھیلائے
اور نہ ہی مسند ہٹا کر اس جگہ آرام کرے۔بلکہ حق تو یہ ہے کہ جس کرسی وغیرہ پر
استاد صاحب ایک دفعہ تشریف فرما ہوجائیں شاگرد کوشش کرے وہاں نہ بیٹھے۔
(3) استاد کے سامنے اپنی آواز پست رکھے: شاگرد استاد کے سامنے
اپنی آواز مدہم و دھیمی رکھے۔ استاد صاحب اگر ڈانٹ دیں تو خاموش رہ کر صبر،صبر اور
صبر کرے۔ اپنے اندر برداشت و تحمُّل مزاجی پیدا کرے اور یہ بات ذہن نشین رکھے کہ
اس کے نتیجے میں وہ دنیا دار لوگوں کی ناپسندیدہ باتیں سننے سے محفوظ رہے گا۔
(4) استاد اور انکے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ
سُلوک کرے: شاگرد استادِ گِرامی اور
انکے عزیزواقربا کے ساتھ صِلہ رحمی کرے۔ ان سے نرمی برتے۔ انکے اہلِ خانہ کو اپنے
اہلِ وعیال کی طرح سمجھے۔ان کی معاونت و نُصرت کے لیے ہَمہ وقت تَن مَن دَھن سے
تیار رہے۔
(5) دروازے پر دستک نہ دے: شاگرد استادِ محترم کے
باہر آنے کا انتظار کرے۔ ان کے گھر وغیرہ کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے۔
یاد رکھیں! مستقبل کی
کامیابی و ناکامی کا دارومدار زمانہ طلبِ علم کی حرکات و سکنات پر ہوتا ہے۔لہٰذا
استاد کی حق تلفی کرنے والا اگر عالم بن بھی گیا تب بھی وہ علمِ نافع کے حصول سے
محروم رہے گا۔کماتَدین تُدان(جیسی کرنی ویسی بھرنی)کیا
کوئی ذی شعور طالبِ علم ایسا چاہے گا؟ !!
رب تعالی ہمیں حقوقِ
استاد کی پاسداری کرنے اور ان کے فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بجاہِ خاتمِ النبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم