ضیاء الدین (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ،حیدرآباد پاکستان)
"
استاد" فارسی کا لفظ ہے، جس کا ایک معنی ہے ''کسی کام کا آغاز کرنے والا''
یا ''موجد'' کے ہے اب جب نئی چیز بنائی جاتی ہے تو سب سے پہلے جو اہم "important " چیز ہے
کہ اس کی بنیاد "Base"
کو مضبوط بنایا جائے اگر اس کی بنیاد مضبوط ، پکی ہے تب تو کوئی مسئلہ نہیں اگر
بنیاد ہی کمزور "weak"
ہے تو اس کے اوپر ایک ستون "pillar" بھی نہیں بنا سکتے ہیں چہ جائیکہ اس پر کوئی بڑی چیز بنائی
جائی اب یہ لازمی سی بات ہے کہ وہ چیز جاندار " living " ہو یا بے جان " non living" ہو مثلاً کوئی عمارت تو یہ اس بات پر " metter" کرتا ہے
کہ اس کی بنیاد کتنی پکی ہے Strong ہے اب اس بنیاد کو مضبوط بنانے میں استاد کا اہم کردار ہے استاد
کی اس میں کلیدی حیثیت ہے کیونکہ جب نئی چیز بنائی جاتی ہے تو وہ بنانے والے کے
اوپر "dependent" کرتا ہے
کہ وہ اس میں کیا "Material"
لگاتا ہے وہ جتنا اچھا ہوگا تو اتنی دیر تک قائم رہے گی ۔ ایک چھوٹے سے بچے کو جب
مدرسے میںداخل کیا جاتا ہے تو وہ بچہ خالی برتن کی طرح ہوتا ہے ، استاد اس پر
محنت کرے گا کہ اس برتن میں کیا ڈالنا ہے جو '' theory '' نظریہ استاد اس بچے کو عطا کرتا ہے تو وہ بچہ تقریباً اپنی
بقیہ زندگی اس کے مطابق گزارے گا " A great teacher makes a great Student" ایک عظیم
استاد عظیم طالب علم بناتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا
کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ قومیں ان کے استادوں نے بنائے ہیں استادوں نے ان پر
اپنا خون پسینہ بہایا ، ان پر محنت کرکے ان کو اپنے تجربات کے ذریعے ان کی رہنمائی
کی ، کیونکہ دنیا میں واحد شخص استاد ہی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ میرا طالب علم مجھ سے
زیادہ " successful man" کامیاب
انسان بن جائے۔ استاد کی اہمیت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی یہ کہ محبوب کائنات وجہ
تخلیق کائنات حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: انَّما بُعِثْتُ مُعَلِّمًا ،یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ۔(
ابن ماجہ)
بہرحال " anyway " استاد
کی بہت اہمیت و فضیلت ہے ، کیونکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں استاد کا خون
پسینہ شامل ہوتا ہے ، جاہل سے عالم استاد بناتا ہے " Art of living" زندگی جینے کا فن استاد ہی سکھاتا ہے ۔ایک استاد زمین سے
آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔اس اعتبار سے یہاں استاد کے چند حقوق ذکر کئے
جاتے ہیں۔
(1) استاد کا ادب Respect of teacher:ایک طالب علم کیلئے استاد
کا ادب بہت ضروری ہے اور ادب سب سے پہلے آتا ہے کیونکہ " Respect is the first
step of success
" کامیابی کی پہلی سیڑھی ہی ادب ہے ، حسن التنبہ میں ہے کہ جو شاگرد یا مرید
، استاد یا پیر کا زیادہ با ادب اور خدمت کرنے والا ہو وہ اس کے علم کا زیادہ وارث
ہوگا۔(حسن التنبہ،ج 1 ص 384)
(2) استاد کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع نہ کریں
: Let teacher be talked : طالب علم کے
اوپر استاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ استاد کے درمیان کلام میں اپنی بات شروع نہ
کرے ، بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ استاد صاحب بات کررہے ہوتے ہیں تو طالب علم بیچ
میں اپنی بات شروع کرتا ہے تو اس سے ہوسکتا ہے استاد کو رنج ہو ، تو ایک طالب علم
کو ہر اس فعل سے بچنا چاہیئے جو استاد کو ناگوار گزرے ۔
(3) استاد کی غیر موجودگی میں اس کی جگہ پر نہ
بیٹھے " Don't sit on his
sate " طالب علم کے اوپر استاد کا حق ہے کہ وہ
استاد کی غیر موجودگی میں ان کی نشست گاہ کا بھی احترام کرے اور ان کی جگہ پہ نہ
بیٹھیں کیونکہ ایک طالب اس وقت تک علم کی مٹھاس نہیں پاسکتا جب تک وہ استاد کی
جلوت و خلوت میں ان کی دل و جان سے تعظیم نہ کرے ۔
(4) اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ
کرے " Don't stingy with him of
anything
" استادوں کے ساتھ بخل نہ کرے چاہے وہ کسی بھی چیز کا ہو کیونکہ استاد ہی
طالب علم کے روحانی تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے تو ایک طالب علم کو زیب نہیں
دیتا کہ اپنے محسن کے ساتھ اس طرح کا بخل کرے۔
(5) استاد کو شکایت کا موقع نہ دے:" Don't give to the
teacher a chance to complain" ایک طالب علم کے اوپر لازم ہے کہ وہ استاد کے سامنے ایسی
کوئی حرکت نہ کرے جس سے استاد کو شکایت ہو یا وہ حرکت استاد کو پسند نہ ہو ، اسی
طرح استاد کے سامنے اپنی آواز بھی اونچی نہ کریں کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے وہ علم کے
نور سے محروم ہوجائے ۔ تو ایک طالب علم کو چاہیئے کہ وہ استادوں کی تعظیم کرے
کیونکہ انسانی زندگی کی ضمانت فراہم کرنے والا شخص ہے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں کما حقہ استادوں کا ادب و تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس کام
سے بچائے جس سے استاد کی توہین ہو ۔