استاد (یعنی معلم ) ہونا بہت بڑی بات ہے جیسا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

ہمارے پیار لے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس منصب کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کر کے اسے عزت و کرامت کا تاج عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا تو اللہ تعالٰی اس کے ثواب کو قیامت تک کیلئے جاری فرما دیتا ہے ۔(کنز العمال، كتاب العلم ،الباب الاول )

آدمی کا علم حاصل کرنا اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو سکھانا بھی صدقہ ہے (کنز العمال ، کتاب العلم ، الباب الاول تقسیم، 10/68،حدیث: 28810 ) آج کل تو علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے جس طرح سے فتنوں کا دور دورہ ہے اور ان فتنوں سے اُس وقت ہی بچا جا سکتا ہے جب ہم علم دین کے ساتھ منسلک رہیں گے اور اپنے اساتذہ کرام سے فیض حاصل کرتے رہیں گے

استاد کے حقوق کا انکار جو کہ مسلمانوں بلکہ تمام عقل کے اتفاق کے خلاف ہے اور یہ بات نا شکری سے جدا ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ احسان کے بدلے کوئی نیکی نہ کی جائے اور یہاں تو اصل ہی کا انکار ہے۔ اور یہ کہنا کہ استاد نے تو مجھے صرف ابتدا میں پڑھایا تھا اس شخص کے لئے کچھ مفید نہیں کیونکہ اس بات پر اجماع ہے اور حدیث میں ہے کہ جس نے تھوڑے احسان کا شکر ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا بھی شکر نہیں کیا ۔ (والترغیب، كتاب الصدقات ،الحديث:8 ،2/46)

اپنے آپ کو استاذ سے افضل قرار دیتا ہے اور یہ خلاف مامور ہے۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علم سیکھو اور علم کیلئے ادب و احترام سیکھو جس نے تجھے علم سکھایا ہے۔ اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔( المعجم الاوسط ،حدیت:6184، 4/342)

علمائے کرام فرماتے ہیں : استاد کاشا گر د پر یہ بھی حق ہے کہ استاد کے بسترپر نہ بیٹھے اگر چہ استاذ موجود نہ ہو (رد المحتار، 1/522 ) علمائے کرام فرماتے ہیں شاگرد کو چلنے میں استاد کے آگے نہیں چلنا چاہیئے۔

علمائے کرام فرماتے ہیں استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاد روح کی زندگی کا سبب ہے۔ طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں جس نے کسی آدمی کو قراٰن مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے اور حضرت علی المرتضی رضی اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا : انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔ اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص 78) اہم شمس الدین سماری مقاصد حسنہ میں حدیث کے امیر المومنین نصر بن حجاج رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں( المعجم الكبير، 1/112 ،حدیث: 7528)

ہم اللہ پاک کی بارگاہ اقدس میں دعا کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں اساتذہ کرام کا ادب واحترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور میں اساتذہ کرام کی بے ادبی سے محفوظ فرمائے۔ اللہ پاک ہمارے اسا تذہ کرام کو نیکیوں بھری طویل زندگی عطا فرمائے ۔اٰمین