کاشف امروی (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ دین
گاہ(ڈنگہ)،تحصیل کھاریاں،ضلع گجرات،پاکستان)
واضح رہے کہ شاگرد کے لیے
اپنے استاد کا ادب واحترام، ان کی عظمت کو اپنے دل میں بٹھانا اور ان کے حقوق بجا
لانا لازمی ہے۔ استاد کی بے ادبی، ان کی تحقیر اور ان کے حقوق کو بجا لائے بغیر نہ
تو ان سے صحیح معنوں میں حصولِ علم ممکن ہو گا اور نہ ہی ان سے حاصل کردہ علم میں
برکت ہو گی۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:"إنَمابُعِثتُ مُعَلِّماً" مجھے سکھانے والا (معلم) بنا
کر بھیجا ہے۔ ایک استاد کی اہمیت کو اس بات سے باخوبی جانا جا سکتا ہے کہ ایک
استاد طالب علم کی تربیت بھی کر دیتا ہے اور زندگی میں بہترین انسان بنا دیتا
ہے۔اس کو جینے کے گُر سکھا دیتا ہے۔ اگر استاد مہربان بھی ہوتو کوئی ہُنر بھی سکھا
دیتا ہے۔ استاد معلم و مربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔
پیارے نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّمَا
أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ ترجمہ: میں تمہارے لیے والد کے مرتبے
میں ہو ں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔(سنن ابی داؤد،حدیث:8) اُستاد کے حقوق بجا لانےکے
سلسلے میں جن باتوں کا خاص طور پر اہتمام و التزام کرنا چاہیے ان میں سے پانچ(5)
ضروری باتیں درج ذیل ہیں:
(1)استاد کا ادب و حترام: استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے
شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت،عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔
علم استاد کے ادب سے ہی آتا ہے۔ ایک مقولہ ہے: باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب۔
جو ادب کرتا ہے وہ پا لیتا ہے جو بے ادبی کرتا ہے وہ پایا ہوا بھی کھو دیتا ہے۔
(2)اس کا کہنا مانیں:استاد کی خواہش ہوتی ہے کہ میں جو
پڑھاؤں طالب علم اس کو یاد کرکے مجھے سنائیں لہذا اس کا کہنا مان کر جو وہ تعلیم
دے اس کو یاد کرے اور اس پر عمل کرے۔ (3) استاد
کو الزام آنے سے بچائے:طالب علم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے بچے، ناغہ کرنے
سے علم و استعداد میں کمی آئے گی۔ اور نتیجۃً لوگ اس کے استاد کوموردِالزام
ٹھرائیں گے۔ چنانچہ اپنے استاد کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق میں سے
ہے۔
(4)اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لے: طالب علم کی یہ بھی ذمہ
داری ہے کہ اگر استاد سے سبق سمجھ نہ آئے تو اس سے سوال کر کے پوچھ لے۔ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:فَإِنَّمَا شِفَاءُ العِى السُّؤَالُترجمہ:نہ جاننے کا علاج معلوم کر لینا ہے۔(سنن ابی
داود، حدیث:336)
(5)فضول سوالات نہ کرے: طالب علم کو چاہئے کہ وہ
استاد سے فضول اور وقت ضائع کرنے والے سوالات سے پرہیز کرے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ وہ ہم کو اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنے ان کے حقوق کی پاسداری کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔