قراٰن کریم میں ارشاد باری ہے : ترجمہ :انسان کو اللہ پاک نے وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا۔ (العلق: 5)

انسان کو فرشتوں اور دیگر مخلوقات سے جو فضیلت حاصل ہے وہ علم کی بنا پر ہے ۔اسی لیے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تحصیلِ علم کے لیے لوگوں کو تاکید فرماتے رہے ، اور یہ بات ظاہر ہے کہ کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لیے کسی نا کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے ، بغیر استاد کے تحصیلِ علم ناممکن ہے ، اور طالب علم یہ بات پیشِ نظر رکھے کہ کتابوں سے زیادہ علم استاد کے پاس ہوتا ہے ، جسے وہ مہارت اور وسیع معلومات کے ذریعے طالب علم کو وقتاً فوقتاً فراہم کرتا رہتا ہے ۔شاگرد جس قدر استاد کے قریب رہ کر تحصیلِ علم کر سکتا ہے کسی اور ذریعے سے اس کا حصول مشکل ہے ۔

دور حاضر میں اس رشتے کی اہمیت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ، جبکہ ہمارےاسلاف رحمہم اللہ (استاد و شاگرد) کا نام سنتے ہی ان کے ذہنوں میں رشتوں کا تقدس ، تعلقات کی پاکیزگی اور احترام و محبت کے جذبات کی اعلٰی تصویر بن جاتی تھی ، دورِ حاضر میں اس اہمیت کے کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری بہت سی اخلاقی و روحانی قدریں کم ہوگئی ہیں جس کی بنا پر ہم اس عظیم رشتے کی اہمیت سے دور ہو کر بیٹھے ہیں ۔ اسی وجہ سی دور حاضر میں استاد کی عزت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ جس طرح شاگرد کے کچھ فرائض ہوتے ہیں اسی طرح استاد کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی ادائیگی ایک طالب علم کے لیے بہت ضروری ہے ۔بغیر اس کے تحصیلِ علم نا ممکن ہے آئیے ملاحظہ کیجئے ۔

(1)استاد کا احترام کرنا : طالب علم کو چاہیے کے وہ اپنے استاد کا احترام کریں اور استاد کی دل آزاری سے اجتناب کریں ۔

(2)استاد کی بات کو توجہ کے ساتھ سننا:طالب علم کو چاہیے کے وہ اپنے استاد کی بات کو بغور توجہ کے ساتھ سنیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے سے اجتناب کریں ۔

(3)استاد کی درس گاہ کا احترام کرنا: طالب علم کو چاہیے کے وہ اپنے استاد کی درس گاہ کا احترام کریں اور درس گاہ کی بےادبی سے اجتناب کریں ۔

(4)استاد کی خدمت کرنا: طالب علم کو چاہیےکے وہ اپنے استاد کی آگے بڑھ کر خدمت کرنے کا شرف حاصل کریں کہ یہ طالب علم کے لیے باعث برکت ہے۔

(5)استاد کے لیے دعائے خیر کرنا:تمام طالب علم کو چاہیے کہ سبق کے اختتام پر استاد کا شکریہ ادا کریں اور استاد کے لیے دعا مغفرت کرے ۔

لہذا ہر طالب علم کو چاہیے کے وہ استاد کے قریب رہ کر علم کو سمندر کی لہر کی طرح اپنے سینے میں سما لے اور استاد کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کی طرف متوجہ کر کے استاد کا دل اپنی طرف مائل کرے ۔