تمام تعریفیں اس مالک و
مولیٰ عزوجل کیلئے جس نے بے کسی معلم کے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو علم عطا فر مایا اور درود و سلام ہو اس نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر جو تمام امت کے معلم بنا کہ کر بھیجے گئے اور آپ کی آل و اصحاب پر استاد
وہ شخصیت ہے جو اپنے شاگرد کو اخلاص کے ساتھ علم کے زیور سے مزین کرتا ہے اور اپنے
سائے میں رکھ کر اسے کامیابی کے زینے پروان چڑھاتا ہے۔
جس طرح ہم پر اللہ پاک نے
اپنے حقوق کو لازم فرمایا اسی طرح بندوں کے آپس کے حقوق کو بھی مقرر فرمایا ۔
انہیں حقوق میں سے استا دو شاگرد کے مقدس رشتے کے حقوق ہیں جن میں سے شاگرد کو
اپنے حقوق ادا کرنا لازم ہے۔ اگر وہ ان حقوق ادا کرے گا تو علم نافع کی دولت سے
مالا مال ہوگا اور دنیا و خرت میں کامیابی حاصل کرے گا ورنہ وہ ناکامی کا سامنا
کرنا پڑے گا استاد کے طالبعلم پر درج ذیل حقوق ہیں ۔
(1) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے
مقدم رکھے۔ عین العلم میں ہے : والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے کیونکہ انکی
نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے
کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذرہ بھر ہے ۔ (الحقوق لطرح العقوق بنام والد ین ، زوجین
اور اساتذہ کے حقوق، ص 91) علامہ مناوی تیسیر شرح جامع الصغیر میں نقل فرماتے ہیں
کہ " جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے ، کیونکہ وہ بدن کا نہیں
روح کا باپ ہے" (التيسير حرف الهمزة ،تحت الحديث : 2580 ، 2/ 454)
حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا
: انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ
وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔
اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص
78) استاد نے کوئی سا بھی علم پڑھایا ہو ، تھوڑا پڑھایا ہو یا زیادہ بہر حال شاگرد
استاد کے ادب کو اپنے اوپر لازم کرلے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55) الخیرات الحسان میں ہے: کروڑوں
حنفیوں کے امام ، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ زندگی بھر اپنے استاد محترم سیدنا امام
حماد علیہ رحمۃ اللہ الجواد کے مکان عظمت نشانی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں لیٹے حالانکہ
آپ رضی اللہ عنہ کے مکان عالی شان اور استاد محترم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے مکان
عظیم الشان کے درمیان تقریبا سات گلیاں پڑتی تھیں ۔ (الخیرات الحسان، ص 82)اللہ
پاک ان کے صدقے ہمیں بھی بے ادب بنائے۔ آمین
(2) اگر کوئی استاد صاحب بیمار ہو جائیں تو انکی عیادت
کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب حاصل کرے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے : جو مسلمان کسی
مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اس کیلئے ستر ہزار فرشتے استغفار
کرتے ہیں اور شام کو جاتے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے
جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (جامع الترمذی ، الحدیث:47 ، ج2 ، ص 290)
(3) طالبعلم کو چاہیے کہ کوئی
بھی اہم فیصلہ کرتے وقت استاد سے مشورہ ضرور کرے ۔ مشورہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ
کی سنت بھی ہے اور آپ علیہ السلام کو مشورہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا جیسا کہ سورہ
آل عمران آیت نمبر 159 میں ہے ترجمہ کنز الایمان : اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
(4) اگر کسی استاد کے ساتھ
کوئی سانحہ پیش آجاے تواسکی غمخواری کرے۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی غمزدہ شخص سے
تعزیت دینی اسکی غمخواری) کرے گا اللہ پاک سے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے
درمیان اسکی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک
اسے جنت کے جوڑوں میں دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔
(المعجم الاوسط للطبرانی، الحديث:929 )
سمجھدار شاگرد کو استاد
کے ان حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے تا کہ شاگرد کو علم نافع عطا ہو اللہ پاک ان
حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔