محمد مدنی رضا عطّاری(درجہ خامسہ ما ڈل جامعۃُ
المدینہ اشاعت الاسلام ملتان پاکستان)
معلم ( teacher) کوئی عام منصب
نہیں بلکہ یہ ایسا منصب ہے جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی عطا کیا
گیا جیسا کہ ارشاد ہے : میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (ابن ماجہ ، 1/150، حدیث:
229)
استاد روحانی باپ ہوتا
ہے۔ کیونکہ والد تو اس کی تربیت اور اخلاقی کو درست کرتا ہے۔ لیکن استاد اسے جہالت سے نکال کر نور یعنی علم کی راہ پر گامزن ( چلاتا) کرتا ہے۔
جس طرح والدین کے حقوق بے شمار ہیں اور بندہ ان کو ادا نہیں کر سکتا اس طرح استاد
کے حقوق بھی بہت سارے ہیں۔ ادب علم کی پہلی سیڑھی ہے۔ اگر انسان علم حاصل کرنا
چاہتا ہے تو سب سے پہلے ادب کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ جس کو جو کچھ ملا وہ صرف ادب
کرنے کی وجہ سے ملا اور جس نے جو کچھ کھویا بے ادبی کی وجہ سے کھویا جس طرح شیطان نے
نبی کی تعظیم نہیں کی اور بے ادبی کی تھی تو وہ قیامت تک مردود و ملعون ہوا ۔ ادب میں
سب سے پہلے استادوں کا ادب، کتابوں کا ادب اور جس جگہ وہ علم حاصل کرتا ہے اس کا
ادب آتا ہے ۔ اگر استاد کا ادب و احترام نہ کیا جائے تو بندہ علم کی حقیقی جانشینی
نہیں پاسکتا۔ استاد کا ادب نہ کرنے والے پہلے تو کامیاب نہیں ہوتے اگر کامیابی مل
بھی جائے تو علم کی روحانیت ان کے قریب نہیں آتی کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے: با
ادب بانصیب بے ادب بے نصیب ۔ استاد کے ادب کے ساتھ اس کے حقوق بھی ادا کرنے چاہیے۔
ذیل میں کچھ استاد کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں تاکہ بندہ اس پر عمل کر کے کامیابیوں
کی بلندی سے ہمکنار ہو سکے۔
(1) استاد کی ناشکری
سے بچنا : محسن (احسان کرنے والوں)
کا شکریہ ادا کرنا یہ کامیاب اور نیک لوگوں کی نشانی ہے۔ استاد کی ناشکری کرنا علم
کی روحانیت کو ختم (Finish)
کر دیتی ہے۔
حدیث پاک میں آتا ہے: جو
شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کرتا۔ (سنن ترمذی
)
(2) استاد کے سامنے عاجزی کرنا: اگر شاگرد چاہے کتنا ہی
مرتبہ کیوں نہ پالے لیکن اسے اپنے استاد کے سامنے ادب اور عاجزی و انکساری سے پیش
آنا چاہیے ۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں
کہ حضور نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لئے ادب و احترام سیکھو، جس استاد نے
مجھے علم سکھا یا اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ (معجم الاوسط )
(3) استاد کی نشست گاہ
پر بیٹھے سے بچنا: شاگرد پر استاد کے ادب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ استاد کی نشست گاہ پر نہ
بیٹھے ۔ ردالمحتار میں ہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر برا بر
ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کی جگہ پر نہ بیٹھے اگرچہ وہ موجود
نہ ہو اور انکی بات کو رد نہ کرے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔ (ردالمحتار، 10/522)
استاد اور شاگرد میں واضح فرق ہونا چاہیے کہ استاد کی نشست اونچی ہو اور شاگرد نیچے
ہو۔
(4) استاد کے آگے بات
کرنے اور آگے چلنے سے بچنا : شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاد کے بات کرنے میں اس سے
آگے نہ بڑھے اور اگر استاد اور شاگرد دونوں آپس میں اکھٹے چل رہے ہوں تو شاگرد
استاد سے آگے نہ بڑھے۔
(5) استاد کی گفتگو
کو غور سے سننا : شاگرد کے لئے ضروری ہے کہ
وہ اپنے استاد کی بات غور سے سنے اور اسے کہنے کے مطابق عمل بجا لائے اپنی سوچ اور
عقل کو استاد کے سامنے کمزور جانے اگر شا کرد کامیاب ہونا چاہتا ہے تو وہ استاد کی
باتوں کو بہت غور سے سنے اور اس کے خاص نکات کو نوٹ کرتا جائے ۔ تب وہ کامیابیوں
کی بلندی کو چھوئے گا اور ترقی یافتہ لوگوں میں اس کا شمار ہوگا۔ استاد جب بات کر
رہا ہو اور طالب علم اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہو اور استاد کی بات غور سے نہ سنے تو
یہ بہت بڑی بے ادبی ہے۔
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو ! استاد کا ادب و احترام جتنا بھی کیا جائے اتنا کم ہے۔ ہمارے اسلاف بزرگان
دین اپنے استادوں کے بہت زیادہ ادب کیا کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل کے بارے میں
آتا ہے کہ آپ ادب کی وجہ سے استاد کو انکے نام سے نہیں بلکہ کنیت سے پکارا کرتے
تھے ۔ اور امام اعظم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کو اپنے استاد سے اتنا زیادہ پیار
تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی استاد کے نام پر رکھا۔ آپ کے استاد کا نام شیخ
حماد تھا تو آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی حماد رکھا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں استاد کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بے ادبی جیسی گندی
بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین