جس طرح والدین کے احسانات کا بدلہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح اساتذہ کے احسانات کا بدلہ بھی ادا نہیں کیا جا سکتا جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح روحانی والدین یعنی اساتذہ کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ استاد کے اپنے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(1) استاد کی تعظیم : طالب علم نہ تو اس وقت تک علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس علم سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک وہ علم ، اہل علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ کسی شاعر نے کہا ہے:

مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ بِالْحَرْمَةِ وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ

یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص56)

(2) استاد کو اپنا روحانی باپ سمجھنا: استاد باپ کا روحانی درجہ رکھتا ہے۔ والدین ہمیں اس دنیا میں لاتے ہیں اور استاد ہمیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ یعنی طریقہ سکھاتے ہیں۔ لہٰذا شاگرد کو چاہئے کہ وہ اپنے استاد کو اپنے حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے تفسیر کبیر میں ہے کہ: استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں اور اساتذہ اسے نار و دوزخ اور آخرت کے مصائب سے بچاتے ہیں۔ (تفسیر کبیر ،1/401)

(3) اہم معاملات میں راہنمائی لینا: استاد علم کا سر چشمہ ہوتا ہے قوموں کی تعمیر و ترقی میں استاد بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے استاد زمانہ طالب علمی سے گزر کر آچکا ہوتا ہے اس وجہ سے جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو طالب علم کو چاہئے کہ وہ اپنے استاد سے ایک مرتبہ مشورہ لازمی کرلے۔ استاد آپ کو کبھی کوئی غلط مشورہ نہیں دے گا استاد آپ کو وہی مشورہ دے گا جس میں آپ کی بہتری ہو جس میں قوم اور ملت کی بہتری ہو۔

ہماری درس گاہوں میں جو یہ استاد ہوتے ہیں۔

حقیقت میں ہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں۔

یہی رکھتے ہیں شہر علم کی ہر راہ کی روشن

ہمیں منزل پر پہنچا کر یہ کتنا شاد ہوتے ہیں۔

(4)استاد کا حکم ماننا : طالب علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے استاد کی ہر بات مانے ،استاد کی ہر بات پر لبیک کہتا ہوا حاضر خدمت ہو جائے ،استاد جس بات سے منع کر دے اس سے رک جانا اور جس بات کا حکم دیں اس کام کو کرنا بھی طالب علم پر لازم ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بڑا مشہور قول ہے کہ : جس نے مجھے ایک حرف سکھا یا میں اس کا غلام ہوں چاہیے۔ اب وہ مجھے فروخت کر دے ، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہ علم ص 29)

جتنی بھی زمانے سے مجھے داد ملی ہے۔

میرا یقین ہے سب باعثِ استاد ملی ہے۔

(5) استاد کے سامنے سچ بولنا : طالب علم کو چاہیئے کہ استاد کے سامنے بالخصوص اور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ ہی بولے کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔ اللہ قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔ (پ3،اٰل عمرٰن‏:61) اور استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی ہے۔ استاد سے چھوٹ بولنے سے علم کی برکات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور جھوٹ بولنے والے کے بارے میں خود معلم کائنات نے فرمایا کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بو سے ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ (سنن ترمذی ،حدیث:1972)

استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تو لیں۔

استاد تو ہر دور میں انمول رہا ہے۔

دیگر اساتذہ کا احترام : جس ادارے میں آپ پڑھ رہے ہیں اس ادارے کے دیگر اساتذہ کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کر صرف انہیں اساتذہ کا ادب کریں جن سے آپ نے اسباق پڑھے ہوں۔

اللہ رب العزت ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے جو اساتذہ دنیا سے رخصت ہو گئے ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور جو حیات ہیں انہیں نیکیوں بھری طویل زندگی عطا فرمائے۔ اٰمین