استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے کہ وہ طالبِ علم کو دنیاوی اور دینوی دونوں کا علم سیکھاتا ہے۔ استادہی وہ شخص ہے جو ہمیں زندگی کے رنگ ڈھنگ سیکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ زندگی میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔وہ ہمیں دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا طریقہ سیکھاتا ہے۔ہر وہ شخص جس نے ایک لفظ کی تعلیم بھی دی ہو وہ بھی استاد ہوتا ہے اور اسے استاد کا درجہ ہی دینا چاہیے۔استاد کی ہر بات کو توجہ سے سننا چاہیے اور استاد کے سامنے اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے۔ استاد کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (ابن ماجہ، 1/150، حدیث: 229) تو اس کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔ استاد کے بارےمیں ارشادِ باری ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ 1، البقرۃ: 31) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔

استاد کے بارے میں احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں کہ استاد کا کیا رتبہ ہے:

1)نبی ِکریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔

(التيسير، 2/454،تحت الحدیث:2580)

2)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے کسی کوقرآنِ مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم كبیر، 8/112، حدیث:7528)

3)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کا حق جاہل پر اور استاذ کا حق شاگرد پر برابر ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کی جگہ پر نہ بیٹھے اگرچہ وہ موجود نہ ہو اور اس کی بات کو رد نہ کرنے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔ (ردالمحتار، 10/522)

4)علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو جس استاد نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط،4/342،حدیث: 6184)

5)استاد کا شاگرد پر یہ بھی حق ہے کہ شاگرد کو بات کرنے اور چلنے میں استاذ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 98)

احادیثِ پاک سے معلوم ہوا !استاد کتنے بڑے رتبے کا مالک ہے! شاگرد کو بھی چاہیے کہ استاد کا ادب و احترام کرے، استاد کی ہر بات پر عمل کرے اور استاد کے سامنے ہمیشہ نظریں جھکا کر رکھے کیونکہ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی استاد کا ادب و احترام اور ہر بات پر عمل کرنے والا شاگرد بنائے۔ ہمیں عالمِ دین بنائے اور ایمان پر خاتمہ ہو۔آمین